بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

انشورنس ممبر بننے کا حکم


سوال

میرے شوہر نے شادی سے پہلے تین جگہ انشورنس کروائی تھی، شادی کو آٹھ سال ہو چکے ہیں، شادی کے دوسرے سال میں نے جب انہیں انشورنس کے ناجائز ہونے کابتایا تو انہوں نے دو جگہ سے انشورنس ختم کروا دی، لیکن اس سے انہیں کافی نقصان ہوا ، ان کمپینوں نےبہت کم پیسے واپس کیے،  اس وجہ سے انہوں نے تیسری جگہ سے انشورنس ختم نہیں کروائی، کیا ہمارے لیے یہ انشورنس جاری رکھنا جائز ہے تاکہ ہم جتنی رقم جمع کروائیں ہمیں واپس مل سکے۔

جواب

واضح رہے کہ انشورنس کی مروجہ تمام اقسام جوئے اور سود کا مجموعہ ہونے کی وجہ سے ناجائز اور حرام ہیں۔

صورتِ مسئولہ میں سائلہ کے شوہر نے تین جگہ انشورنس کروایا تھا، اور پھر دو جگہ سے انشورس  ختم کروانے  پر ان کو اصل رقم سے کم رقم واپس ملی ہے، جب کہ ایک جگہ سے انشورنس ختم نہیں کیا، تو ایسی صورت چو ں كه  يه معامله ناجائز  اور  حرام معاملہ ہے اگر  سائلہ کا شوہر فوراً اس معاملے كو ختم كركے نقصان كو برداشت كرسكتا ہےتو  اس کے لیے بہتر یہی ہے کہ   اس معاملے كو  فوراًختم كرلے،  اور اگر سائلہ کا شوہر تنگدست ہو اور اس نقصان کو برداشت کرنے کا متحمل نہ ہو تو اس صورت میں مجبوراً اپنی اصل رقم واپس لینے کے لیے یہ معاملہ اس وقت تک  جاری رکھ سکتا ہے، اور اصل رقم  ملنے کی صورت میں  اس سے زائد رقم لینا جائز  نہیں ہے۔نیز تین مختلف جگہوں پر لگائی گئی رقم کا نقصان  جاری شدہ انشورنس والے معاملے سے پورا کرنا بھی ناجائز ہے۔

قرآنِ کریم میں ہے:

﴿ يَآ أَيُّهَا الَّذِينَ اٰمَنُوآ اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُون﴾[المائدة: 90]

صحیح مسلم  میں ہے:

"حدثنا محمد بن الصباح، وزهير بن حرب، وعثمان بن أبي شيبة، قالوا: حدثنا هشيم، أخبرنا أبو الزبير، عن جابر، قال: «لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم آكل الربا، ‌ومؤكله، ‌وكاتبه، وشاهديه»، وقال: «هم سواء»."

(کتاب المساقاۃ،باب لعن آکل الربا ومؤکله۔3/1219۔دار إحیاء الکتب العربیة)

مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے:

"حدثنا أبو بكر قال: حدثنا ابن أبي زائدة، عن عاصم، عن ابن سيرين، قال: «كل شيء ‌فيه ‌قمار فهو من الميسر»."

(كتاب البيوع و الأقضية/4/420۔مکتبة الرشد)

فتاوی شامی میں ہے:

"وسمي القمار قمارًا؛ لأنّ كل واحد من المقامرين ممن يجوز أن يذهب ماله إلى صاحبه، و يجوز أن يستفيد مال صاحبه وهو حرام بالنص."

(کتاب الحظر و الإباحة، فصل في البیع، 6/403،ط: سعید)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144408101786

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں