بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

لائف انشورنس سے ملنے والی رقم کاحکم


سوال

جناب عالی ! مجھے کچھ پیسے تیس لاکھ کے قریب لائف انشورنس کمپنی سے ملنے ہیں ، آپ سے یہ پوچھنا ہے کہ میں یہ پیسے اپنے ضرورت مندرشتہ داروں یااپنےبہن بھائیوں کوبغیرکسی ثواب کی نیت سے دے سکتاہوں ،یایہ پیسے صرف انہی لوگوں کودیے جاسکتےہیں جوخیرات یازکوۃ کے مستحق ہیں۔مجھے یہ بھی بتائیے کہ یہ پیسےمیں خودبھی استعمال کرسکتاہوں یانہیں میراتعلق سیدفیملی سے ہےاورسیدپرزکوۃ لینانہیں بنتا، تواس صورت میں اپنے بہن بھائیوں یارشتہ داروں کودے سکتاہوں یانہیں ؟

جواب

واضح رہے کہ شرعی نقطہ نظرسےاسٹیٹ لائف انشورنس کمپنی سے منافع حاصل کرناجائز نہیں ہے کیونکہ یہ منافعسود اور جوئے کا مجموعہ ہیں،  سود  "اس اعتبار سے ہے کہ حادثہ کی صورت میں جمع شدہ رقم سے زائد رقم ملتی ہے اور زائد رقم سود ہے،  اور "جوا" اس اعتبار سے ہے کہ بعض صورتوں  میں اگر حادثہ وغیرہ نہ ہوتو  جمع شدہ رقم بھی واپس نہیں ملتی،بلکہ انشورنس کمپنی اس رقم کی مالک بن جاتی ہے۔

 لہذاصورت مسئولہ میں  کمپنی کی طرف سے اصل رقم کے علاوہ جواضافی رقم ملےگی وہ حرام ہوگی ۔اورحرامرقم کو اگر اس کے مالک تک پہنچانا ممکن نہ ہوتو اس کا مصرف یہی ہے کہ کسی مستحقِ زکوۃ(غیرسید)کو وہ رقم ثواب کی نیت کے بغیر مالک بناکر دے دی جائے۔سائل اوراس کے بہن بھائی چونکہ سیدہیں اورسید کے لئے  زکوۃ اور صدقات واجبہ لینا جائز نہیں، اس لیے سائل اوراس کے بہن بھائی اس رقم کواپنے استعمال  میں نہیں لاسکتےالبتہ اگرکوئی رشتہ دارغیرسیدمستحق زکوۃ ہے تواسے دیناجائزہے۔

صحیح مسلم  میں ہے:

عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: «لَعَنَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اٰكِلَ الرِّبَا، وَمُؤْكِلَهُ، وَكَاتِبَهُ، وَشَاهِدَيْهِ»، وَقَالَ: «هُمْ سَوَاءٌ»".

(صحیح مسلم ، کتاب المساقات،3/1219، دار احیاء التراث ، بیروت)

فتاوی شامی میں ہے:

(قوله لأنه يصير قمارا) لأن القمار من القمر الذي يزداد تارة وينقص أخرى، وسمي القمار قمارا لأن كل واحد من المقامرين ممن يجوز أن يذهب ماله إلى صاحبه، ويجوز أن يستفيد مال صاحبه وهو حرام بالنص.

(ردالمحتار علی الدر المختار ، کتاب الحظر والاباحة،فصل فی البیع، ۶/۴۰۳،ط:سعید)

فتاوی شامی میں ہے :

والحاصل أنه إنعلم أرباب الأموال وجب رده عليهم وإلا فإن علم عين الحرام لا يحل له ويتصدق به بنية صاحبه.

(ردالمحتار علی الدر المختار ، باب البیع الفاسد۵/ ۹۹ ط : سعید)

البحرالرائق میں ہے :

لو مات رجل وكسبه من ثمن الباذق والظلم أو أخذ الرشوة تعود الورثة ولا يأخذون منه شيئا وهو الأولى لهم ويردونه على أربابه إن عرفوهم وإلا يتصدقوا به لأن سبيل الكسب الخبيث التصدق إذا تعذر الرد ۔

(البحرالرائقفصل فی البیع۸ / ۲۲۹ ط : دارالمعرفۃ بیروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144305100044

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں