بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

انشورنس کی حرمت کا علم ہونے کے بعد مزید رقم جمع کرانے کا حکم


سوال

زید نے بیمہ انشورنس کمپنی سے 20 سالہ معاملہ کیا،جو سالانہ تقریبا بیس ہزار روپے تھا ، وہ مسلسل اٹھارہ سال سے بیس ہزار روپے جمع کروا رہا ہے،لیکن  اب اس کو  اس معاملے کی شرعی حرمت کا پتہ چلا تو اس کے لیے کیا حکم ہے؟ آیا  وہ  اب بقیہ سالانہ  بیس ہزار روپے  جمع کروائے یا نہیں ،اگر وہ جمع نہیں  کروائے گا  تو گذشتہ ادا شدہ رقم ضائع ہونے کا خدشہ ہے اور پلان مکمل کرتا ہے تو اس کی ذاتی ادا شدہ رقم اور اضافی رقم کا کیا حکم ہے ؟

جواب

 انشورنس کے اندر  "سود" کے ساتھ " جوا" بھی پایا جاتا ہے، اور اسلام میں یہ دونوں چیزیں  حرام ہیں، ان کی حرمت قرآنِ کریم کی واضح اور قطعی نصوص سے ثابت ہے ، لہذا  زید کے لیے کسی بھی قسم کا  انشورنس  کرانا اور انشورنس کی مد میں رقم جمع کرانا  ابتداءً ہی ناجائز  اور حرام تھا ، لیکن اصل رقم کو بچانے کے لیے بقیہ دو سال  کی رقم ناجائز سمجھتے ہوئے  جمع کرا نا  جائز ہے ، لیکن انشورنس پالیسی لینے پر  اصل رقم کے علاوہ جو اضافی رقم ملے گی  ، اس کو وصول کرنا اور اس کو اپنے استعمال میں لانا  نا جائز ہے؛  اس لیے مذکورہ صورتِ حال میں زیدکے لیے حکم یہ ہے کہ   اصل رقم سے زائد   رقم وصول ہی  نہ کرے، صرف اپنی جمع کروائی ہوئی حلال رقم ہی  وصول کرے  اور اگر  ادارہ اصل رقم کے ساتھ  زائد رقم زیدکو دیتا  ہو تو اس کو وصول کرنے کے بعد بھی اگر وہ  زائد رقم ادارے کو واپس کرنے کی کوئی صورت ہو تو واپس کر دے،اور اگر یہ  ممکن نہ ہو تو پھر کسی مستحقِ زکوۃ شخص کو ثواب کی نیت کے بغیر دے دے۔

قرآنِ کریم میں ہے:

"﴿ يَآ أَيُّهَا الَّذِينَ اٰمَنُوآ اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَ نْصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُون﴾ [المائدة: 90]"

"ترجمہ :اے ایمان والو بات یہی ہے کہ شراب اور جوا اور بت وغیرہ اور قرعہ کے تیر یہ سب گندی باتیں شیطانی کام ہیں سو ان سے بالکل الگ رہو تاکہ تم کو فلاح ہو۔"

(بیان القرآن)

صحیح مسلم  میں ہے:

"عن جابر، قال: «لعن رسول الله صلّى الله عليه وسلّم اٰكل الربا، وَمؤكله، وكاتبه، وشاهديه»، وقال: «هم سواء»".

( کتاب المساقات، ج: 3، ص: 1219، ط: دار احیاء التراث ، بیروت)

مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے:

"عن ابن سیرین قال: کل شيء فیه قمار فهو من المیسر".

( کتاب البیوع  والأقضیة، ج: 4، ص: 483، ط: مکتبة رشد، ریاض)

"فتاوی شامی "میں ہے:

"وسمي القمار قمارا؛ لأن كل واحد من المقامرين ممن يجوز أن يذهب ماله إلى صاحبه، ويجوز أن يستفيد مال صاحبه وهو حرام بالنص".

( کتاب الحظر والاباحة، ج:6، ص: 403، ط: سعید)

"الأشباه والنظائر" میں ہے:

"القاعدة الثانية: الضرر يزال...............ومنها: قولهم: متى أمكن الدفع بأسهل الوجوه لم يعدل إلى أصعبها."

 (‌‌الكلام في القواعد الفقهية والمدارك الشرعية والمآخذ الأصولية، القواعد الخمس، ج: 1، ص: 41- 45، ط: دار الكتب العلمية، بيروت)

"المبسوط للسرخسي" میں ہے:

" والسبيل في الكسب الخبيث التصدق."

(السلم في المسابق والفرا، كتاب البيوع، ج: 12، ص: 172، ط: مطبعة السعادة - مصر)

"فتاویٰ شامی"میں ہے:

"والحاصل أنه إن علم أرباب الأموال وجب رده عليهم، وإلا فإن علم عين الحرام لا يحل له ويتصدق به بنية صاحبه."

(‌‌باب البيع الفاسد، كتاب البيوع، ج: 5، ص: 99، ط: سعید)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144501100451

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں