بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

انشورنس کرا لیا تھا، اب معلوم ہوا کہ ناجائز ہے


سوال

میری والدہ سرکاری اسکول میں معلمہ  ہیں اور انھوں نے 2012 میں لائف انشورنس (LIC/زندگی کا بیما) کروایا تھا اُس وقت اِس چیز کی اِن کو معلومات نہیں تھی کہ یہ جائز ہے یا نہیں،  اس کی کچھ تفصیل اس طرح ہے کہ ایک طے شدہ مدت تک کے لیے لائف انشورنس کیا جاتا ہے مثلاً 10 سال، 12 سال یا 15 سال وغیرہ کے لیے، اور اس مدت تک ہر ماہ کو یا چھ ماہ کو یا ایک سال کو قسط وار طے شدہ رقم بھرنا پڑتی ہے، اس طرح جتنی مدت کے لیے انشورنس کیا گیا ہے اتنی مدت تک پیسے بھرتے رہنا پڑتا ہے اور متعینہ وقت پر اگر پیسے نہ بھرے جائیں تو اس پر بیاج  لگتا ہے۔

گزشتہ دو سال تک یعنی 2017 تک قسطیں والدہ کی تنخواہ میں سے ہی کٹ جاتی تھیں،  لیکن اب نہیں کٹ رہیں،  بلکہ الگ سے جاکر ہم کو بھرنا پڑ رہا ہے  جس کی وجہ سے اکثر اوقات تاخیر ہورہی ہے بھرنے میں۔ اب جب لائف انشورنس کی مدت مکمل ہوجائے گی تو بھری گئی رقم سود  کے  ساتھ واپس کی جاتی ہے،  مثلاً اگر 5 لاکھ اصل رقم ہے (تاخیری بیاج  کے علاوہ) تو لائف انشورنس کمپنی 7 یا 8 لاکھ روپے وغیرہ ایسی کچھ رقم دیتی ہے اور پھر جس کی زندگی کا انشورنس کروایا گیا ہے اُس کے مرنے کے بعد اس کے Nominee کو مزید 5 لاکھ یا 7 لاکھ وغیرہ ایسی کچھ رقم الگ سے دیتی ہے سرکار۔

چوں کہ اب میری والدہ نے دینیات کا کورس کیا ہے تو ان کو وہاں بتلایا گیا کہ انشورنس کروانا جائز نہیں ہے تو ہم نے سوچا کہ یہ بند کروادینا چاہیے جو کہ سال 2023 میں ختم ہونے والا ہے اور اسی نیت سے ہم بند کروانے کے لیے گئے،  لیکن وہاں معلومات لینے پر پتہ چلا کہ اگر طے شدہ مدت سے پہلے پیسے نکالے تو ہم نے اب تک جتنے پیسے بھرے ہیں اصل رقم اس کا نصف حصہ بمشکل ملے گا اور لائف انشورنس کی جو رقم ملتی ہے  مرنے کے بعد وہ بھی نہیں ملے گی۔  لہٰذا صورتِ  مسئلہ میں کیا کیا جائے؟ اگر ابھی بند کر دیا گیا تو بہت نقصان ہوگا۔

دوسری ایک بات یہ کہ مرنے کے بعد جو رقم ملتی ہے سرکار کی جانب سے وہ لینا کیسا ہے؟ برائے مہربانی کیا جائز اور کیا ناجائز ہے اور اس کا اب کیا حل ہے ؟  اس کشمکش کے لیے مکمل و مدلل تشفی بخش جواب عنایت فرمائیں تو عین نوازش ہوگی!

جواب

صورتِ  مسئولہ میں  ناجائز معاملہ کرنے پر دل سے توبہ و استغفار کرنا لازم ہے۔ باقی انشورنس کے لیے جو رقم جمع کرائی ہے، وہی رقم واپس لینا جائز ہے، اس جمع شدہ رقم کے عوض اس سے زائد رقم لینا ناجائز ہے، چاہے وہ زائد رقم والدہ کی زندگی میں ملے یا ان کے انتقال کے بعد۔

انشورنس ایک سودی معاملہ ہے اور سودی معاملہ کا حکم یہ ہے کہ اسے جلد از جلد ختم کیا جائے، لہذا اسے فی الفور ختم کرنے میں اگر دنیوی نقصان ہو بھی رہا ہو، تب بھی اخروی نقصان سے بچنے کے لیے اس معاملہ کو جلد از جلد ختم کردیں۔ فقط و اللہ اعلم


فتوی نمبر : 144110200681

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں