بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

انشورنس کے پیسے وصول کرنے کا حکم


سوال

انشورنس کے پیسے وصول کرنے کا کیا حکم ہے؟

جواب

مروجہ انشورنس کا کسی بھی قسم کا معاملہ "سود" اور "جوئے" کا مجموعہ ہونے کی وجہ سے ناجائز اور حرام ہے، اسلام میں یہ دونوں چیزیں حرام ہیں، ان کی حرمت قرآنِ کریم اور احادیث نبویہ کی واضح اور قطعی نصوص سے ثابت ہے۔انشورنس میں   "سود" اس اعتبار سے ہے کہ حادثہ کی صورت میں جمع شدہ رقم سے زائد  رقم ملتی ہے اور زائد رقم سود ہے،  اور "جوا" اس اعتبار سے ہے کہ بعض صورتوں  میں اگر حادثہ وغیرہ نہ ہوتو  جمع شدہ رقم بھی واپس نہیں ملتی، انشورنس کمپنی اس رقم کی مالک بن جاتی ہے۔ لہذا کسی بھی قسم کا  انشورنس کرنا  اور کرانا اور انشورنس کمپنی کا ممبر بننا شرعاً ناجائز  اور حرام ہے، اور اگر کسی نے انشورنس کرالی ہو تو جتنی رقم جمع كروائي هو  اُسی قدر رقم وصول کرسكتا هے،جمع كرده رقم سے زائد رقم وصول کرنا جائز نہیں ہے۔

قرآنِ کریم میں ہے:

"﴿ يَآ أَيُّهَا الَّذِينَ اٰمَنُوآ اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَ نْصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُون﴾."[المائدة: 90]"

ترجمہ :"اے ایمان والو بات یہی ہے کہ شراب اور جوا اور بت وغیرہ اور قرعہ کے تیر یہ سب گندی باتیں شیطانی کام ہیں سو ان سے بالکل الگ رہو تاکہ تم کو فلاح ہو۔"(بیان القرآن)

صحیح مسلم  میں ہے:

"عن جابر، قال: «لعن رسول الله صلّى الله عليه وسلّم اٰكل الربا، وَمؤكله، وكاتبه، وشاهديه»، وقال: «هم سواء»".

( کتاب المساقات، ج: 3، ص: 1219، ط: دار احیاء التراث ، بیروت)

ترجمہ:" حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضوراکرمﷺ نے سود کھانے والے، اور کھلانے والے اور (سودکاحساب) لکھنے والے اور سود پر گواہ بننے والے پر لعنت فرمائی ہے،اور فرمایا: کہ وہ سب (گناہ میں) برابر ہیں۔"

فتاوی شامی میں ہے:

"‌وسمي القمار قمارا لأن كل واحد من المقامرين ممن يجوز أن يذهب ماله إلى صاحبه، ويجوز أن يستفيد مال صاحبه وهو حرام بالنص".

( کتاب الحظر والاباحة،‌‌ فصل في البيع، ج: 6، ص: 403، ط: سعید)

فقط والله تعالى اعلم


فتوی نمبر : 144505100926

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں