بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

انشورنس کمپنی یا اس سے ریلیٹد بزنس سے جڑی ہوئی کمپنیوں سے میڈیکل یا ہیلتھ کوریج لینے کا حکم


سوال

انشورنس کمپنی یا اس سے ریلیٹد (متعلقہ) بزنس  سے  جڑی ہوئی کمپنیوں سے  میڈیکل یا ہیلتھ  کوریج لینے کے بارے میں  شرعًا  کیا حکم ہے؟ مثال  کے طور  پر یہ کمپنیاں آپ کوکسی حادثے کی صورت میں میڈیکل کوریج دیتی ہیں کہ آپ کو ہسپتال یا ڈاکٹر کا  خرچہ ادا کرتی ہیں یا اسی طرح سے کسی حادثے کی صورت میں  ایک مخصوص  رقم آپ کے ورثاء کو ادا کرتی ہیں یا کسی حادثے میں  جسمانی معذوری ہونے کی صورت میں آپ کو ایک مخصوص رقم دیتی ہیں۔اس بارے میں شرعًا  کیا حکم ہے؟کیا ایسی کوریج لینا صحیح ہے؟برائے مہربانی رہنمائی فرمائیں!

جواب

واضح رہے کہ مروجہ انشورنس  کی تمام کمپنیوں کا معاملہ بھی  بینک کے کاروبار کی طرح ایک سودی معاملہ ہے،  دونوں میں صرف شکل وصورت کا فرق ہے،نیز انشورنس کے اندر  "سود" کے  ساتھ " جوا" بھی پایا جاتا ہے، اور اسلام میں یہ دونوں حرام ہیں، ان کی حرمت قرآن کریم اور احادیث ِمبارکہ سے ثابت ہے۔

جہاں تک میڈیکل انشورنس کا سوال ہے،تو عموماً اس کی دو صورتیں رائج ہیں:

(1)  اختیاری  (2)  جبری

(1) اختیاری:اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی شخص اپنی مرضی واختیار سے انشورنس کروائے ،متعلقہ ادارے یا کمپنی کی طرف سے  انشورنس کروانا اس پرلازم نہ ہو۔

اس کا حکم یہ ہے کہ انشورنس كي مد ميں جتنی رقم جمع کروائی ہے، اتنی هي رقم  وصول کی جاسکتی ہے،يا اس رقم كے بقدر علاج معالجه كرایاجاسكتا هے،اس سے زائد رقم وصول كرنا يا اس سےزائد رقم كا علاج كرانا شرعًا ناجائز اور حرام هے۔

(2)جبری:اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی شخص اپنی مرضی واختیار سے انشورنس نہیں کروائے،بلکہ جس  ادارے  میں کوئی کام کرتا ہے  وہ ادارہ   اپنے ملازمین کا انشورنس  کرواتا ہے یا پھر ادارہ اپنے ملازمین کی انشورنس کروانے کا پابند کرے،اس کی پھر تین صورتیں رائج ہیں۔

(1 )پہلی صورت یہ ہے کہ متعلقہ  ادارے  کا ملازم کسی کلینک یا ہسپتال سے علاج کراتا ہے اور علاج کے اخراجات کلینک یا ہسپتال والے براہِ راست انشورنس کمپنی سے وصول کرتے ہیں، اس صورت میں اگرچہ متعلقہ ادارے کو انشورنس کے معاملے کا گناہ ہوگا، لیکن  ملازم کے لیے جائز ہے کہ وہ  علاج کرائے؛ کیوں کہ علاج کے خرچ  کی ذمہ داری متعلقہ ادارے پر ہے۔
(2 )  دوسری صورت یہ ہے کہ متعلقہ  ادارے کا ملازم کسی کلینک یا ہسپتال سے علاج کراتا ہے اور کلینک یا ہسپتال والے علاج کے اخراجات اس ملازم کےمتعلقہ ادارے سے وصول کرتے ہیں اور پھر وہ ادارہ اس علاج  کے اخراجات انشورنس کمپنی سے وصول کرلیتا ہے، یہ صورت بھی ادارےکے لیے جائز نہیں ہے، مگر ملازم کے لیےاس طرح علاج کروانا  جائز ہے۔
(3 ) تیسری صورت یہ ہے کہ متعلقہ ادارے کا ملازم کلینک یا ہسپتال کی فیس خود ادا کرے، لیکن متعلقہ ادارے نے اس کو پابند کردیا ہو کہ وہ بل کی رقم خود جاکر انشورنس کمپنی سے وصول کرے، اس صورت میں  چوں کہ ملازم کو انشورنس کمپنی سے براہِ  راست رقم مل رہی ہے، جس کا زیادہ تر  روپیہ حرام ہے، اس لیے  ملازم  کے لیے اس کا لینا جائز نہیں ہوگا، البتہ اگر ملازم کو یہ معلوم ہو سکے کہ اس کے متعلقہ ادارے  نے انشورنس کمپنی کو جتنی قیمت ادا کی ہے، ابھی تک اتنی رقم اس ادارےکے  ملازم نے وصول نہیں کی، تو جتنی رقم انشورنس کمپنی کے پاس ہو تو اس حد تک رقم وصول کرنا جائز ہوگا۔

نیز انشورنس کمپنیاں کسی حادثے کی صورت میں جو ایک مخصوص رقم  انشورنس کروانے والے کےورثاء کو ادا کرتی ہیں،اس کو لائف انشورنس کہتے ہیں،اس کا حکم یہ ہے کہ اولاً تو یہ کروانا ہی جائز نہیں،اور اگر کوئی شخص لاعلمی میں کرواچکا ہو تو اس کے ورثاء کے لیے اصل  رقم کو وصول کرنا تو  جائز ہوگا،لیکن اصل رقم سے زائد رقم بوجہ سود ہونے کے وصول کرنا جائز نہیں  ہوگا۔

    قرآنِ کریم میں ہے:

﴿ يَآ أَيُّهَا الَّذِينَ اٰمَنُوآ اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُون﴾[المائدة: 90]

صحیح مسلم  میں ہے:

"حدثنا محمد بن الصباح، وزهير بن حرب، وعثمان بن أبي شيبة، قالوا: حدثنا هشيم، أخبرنا أبو الزبير، عن جابر، قال: «لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم آكل الربا، ‌ومؤكله، ‌وكاتبه، وشاهديه»، وقال: «هم سواء»."

(کتاب المساقاۃ،باب لعن آکل الربا ومؤکلہ۔3/1219۔دار احیاء الکتب العربیہ)

مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے:

"حدثنا أبو بكر قال: حدثنا ابن أبي زائدة، عن عاصم، عن ابن سيرين، قال: «كل شيء ‌فيه ‌قمار فهو من الميسر»."

(كتاب البيوع و الأقضية/4/420۔مکتبۃ الرشد)

فتاوی شامی میں ہے:

"وسمي القمار قمارًا؛ لأنّ كل واحد من المقامرين ممن يجوز أن يذهب ماله إلى صاحبه، و يجوز أن يستفيد مال صاحبه وهو حرام بالنص."

(کتاب الحظر و الإباحة، فصل في البیع، 6/403۔سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144303100259

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں