بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

انشورنس کمپنی کے لیے خدمات کرنے کا حکم


سوال

میں ایک گاڑیوں کے شوروم پر کام کرتا ہوں،وہاں گاڑیوں کی خرید وفروخت بھی ہوتی ہے اور گاڑیوں کو دوسری کمپنیوں کو ماہانہ بنیاد پر کرایہ پر بھی دیا جاتا ہے،اس کام سے پہلے ہمارا شوروم اپنی گاڑی انشورڈ کرواتا ہے،میں انشورنس کو جائز نہیں سمجھتا،مگر نوکری کی وجہ سے انشورنس کمپنی سے رابطہ کرنااور پیسوں وغیرہ کی لین دین میں ہی کرتا ہوں،توکیامیں گنہگار ہوں گا؟اور کیا مجھے ایسی جگہ نوکری کرنی چاہئے؟تفصیل سے آگاہ فرمائیں۔۔

جواب

واضح رہے کہ گاڑیوں کے شوروم پر کام کرنا علی الاطلاق منع نہیں ہے،لیکن صورتِ مسئولہ میں چوں کہ سائل کو ملنے والی تنخواہ انہی خدمات کے عوض ہوگی،جو خدمات وہ انشورنس کمپنی کے لیے انجام دیتا ہے،یا مکمل تنخواہ نہیں بھی،تو بھی اس کا کچھ حصہ انہی خدمات کے عوض ہوگا اور چوں کہ انشورنس کمپنی سود اور جوئے پر مشتمل ایک   ادارہ ہے  اور  اس کے لیے کسی بھی قسم کی خدمات انجام دینا جائز نہیں ہے؛ لہذا سائل کے لیے مذکورہ شوروم پر کام کرنا اور وہاں سے ملنے والی تنخواہ کا استعمال کرنا درست نہیں ہے،سائل کو چاہیے کہ کسی اور  جگہ ملازمت تلاش کرے ،جہاں اس قسم کے ناجائز اور سودی معاملات نہ پائے جاتے ہوں۔

احکام القرآن میں ہے:

"ولا خلاف بین أهل العلم في تحریم القمار".

(ج:1، ص:540، ط:قدیمي)

تفسیر ابن کثیر میں ہے:

"ولا تعاونوا على الإثم و العدوان، یأمر تعالی عبادہ المؤمنین بالمعاونة علی فعل الخیرات وهوالبر و ترك المنکرات و هو التقوی، و ینهاهم عن التناصر علی الباطل و التعاون علی المآثم والمحارم".

 (سورة المائدة، ج:2، ص:12، ط:دار طيبة للنشر والتوزيع)

حدیث شریف میں ہے:

"عن جابر قال: لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم آكل الربا، ومؤكله، وكاتبه، وشاهديه، وقال: هم سواء."

(صحیح مسلم، باب لعن آکل الربوٰ و موکله، ج:3، ص:1219، ط: داراحیاءالتراث العربی)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144505100606

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں