بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

انشورنس کمپنی کے ملازم کی امامت کا حکم


سوال

ایک شخص انشورنس کمپنی میں کام کرتا ہے تو کیا اس کے پیچھے با جماعت نماز پڑھ سکتے ہیں؟

جواب

ایسا شخص جس کی کمائی حلال نہیں ہو، وہ فاسق کے حکم میں ہے اور فاسق جب تک حرام کمانے سے توبہ نہ کرلے اسے  امام بنانا مکروہ ہے، البتہ جو نمازیں کسی وجہ سے اس کے پیچھے پڑھی گئیں ہوں وہ ادا ہوگئیں، ان کا اعادہ ضروری نہیں، تاہم بالقصد  ایسے  امام  نہیں بنایا چاہیئے

الدر المختار میں ہے:

"ويكره إمامة عبد ... وفاسق..." إلخ.

فتاوی شامی میں ہے:

(قَوْلُهُ وَفَاسِقٌ) مِنْ الْفِسْقِ: وَهُوَ الْخُرُوجُ عَنْ الِاسْتِقَامَةِ، وَلَعَلَّ الْمُرَادَ بِهِ مَنْ يَرْتَكِبُ الْكَبَائِرَ كَشَارِبِ الْخَمْرِ، وَالزَّانِي وَآكِلِ الرِّبَا وَنَحْوِ ذَلِكَ، كَذَا فِي الْبُرْجَنْدِيِّ إسْمَاعِيلُ.

وَفِي الْمِعْرَاجِ قَالَ أَصْحَابُنَا: لَا يَنْبَغِي أَنْ يَقْتَدِيَ بِالْفَاسِقِ إلَّا فِي الْجُمُعَةِ لِأَنَّهُ فِي غَيْرِهَا يَجِدُ إمَامًا غَيْرَهُ. اهـ. قَالَ فِي الْفَتْحِ وَعَلَيْهِ فَيُكْرَهُ فِي الْجُمُعَةِ إذَا تَعَدَّدَتْ إقَامَتُهَا فِي الْمِصْرِ عَلَى قَوْلِ مُحَمَّدٍ الْمُفْتَى بِهِ لِأَنَّهُ بِسَبِيلٍ إلَى التَّحَوُّلِ (كتاب الصلاة، باب الإمامة، ١ / ٥٦٠، ط: دار الفكر)

الدر المختار میں ہے:

وَفِي النَّهْرِ عَنْ الْمُحِيطِ:"صلى خلف فاسق أو مبتدع نال فضل الجماعة".

فتاوی شامی میں ہے:

(قَوْلُهُ نَالَ فَضْلَ الْجَمَاعَةِ) أَفَادَ أَنَّ الصَّلَاةَ خَلْفَهُمَا أَوْلَى مِنْ الِانْفِرَادِ، لَكِنْ لَا يَنَالُ كَمَا يَنَالُ خَلْفَ تَقِيٍّ وَرَعٍ لِحَدِيثِ «مَنْ صَلَّى خَلْفَ عَالِمٍ تَقِيٍّ فَكَأَنَّمَا صَلَّى خَلْفَ نَبِيٍّ» قَالَ فِي الْحِلْيَةِ: وَلَمْ يَجِدْهُ الْمُخَرِّجُونَ نَعَمْ أَخْرَجَ الْحَاكِمُ فِي مُسْتَدْرَكِهِ مَرْفُوعًا «إنْ سَرَّكُمْ أَنْ يَقْبَلَ اللَّهُ صَلَاتَكُمْ فَلْيَؤُمَّكُمْ خِيَارُكُمْ، فَإِنَّهُمْ وَفْدُكُمْ فِيمَا بَيْنَكُمْ وَبَيْنَ رَبِّكُمْ» ( كتاب الصلاة، باب الإمامة،  ١ / ٥٦٢، ط: دار الفكر)۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144202200841

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں