بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

انشورنس اور مروجہ تکافل کا طریقہ کار اور عدمِ جواز کی وجوہات


سوال

تکافل و انشورنس کے فرق کے بارے میں مکمل راہنمائی فرمائیں تاکہ عمل کرنے میں آسانی و تسکین شاملِ حال رہے۔

جواب

واضح رہے کہ حکم کے اعتبار سے انشورنس اور مروّجہ تکافل کے نظام میں کوئی فرق نہیں ہے، یعنی جس طرح انشورنس کا معاملہ کرنا شرعا ناجائز ہے  اسی طرح تکافل کا معاملہ کرنا بھی شرعا ناجائز ہے، ذیل میں دونوں معاملوں کے عدمِ جواز کی وجوہات ذکر کی جارہی ہیں تاکہ سمجھنے میں آسانی ہو:

انشورنس کا طریقہ کار اور عدمِ جواز کی وجوہات :

مروجہ انشورنس  کی تمام کمپنیوں کا معاملہ بھی  بینک کے کاروبار کی طرح ایک سودی معاملہ ہے،  دونوں میں صرف شکل وصورت کا فرق ہے، نیز انشورنس کے اندر  "سود"  کے ساتھ " جوا"  بھی پایا جاتا ہے، اور  اسلام میں یہ دونوں حرام ہیں، ان کی حرمت قرآنِ کریم کی واضح اور قطعی نصوص سے ثابت ہے، کسی زمانے کی کوئی مصلحت اس حرام کو  حلال نہیں کرسکتی۔

انشورنس میں   "سود" اس  اعتبار  سے  ہے کہ حادثہ  کی صورت میں جمع شدہ رقم سے زائد  رقم ملتی ہے اور زائد رقم سود ہے،  اور "جوا" اس اعتبار سے ہے کہ بعض صورتوں  میں اگر حادثہ وغیرہ نہ ہوتو  جمع شدہ رقم بھی واپس نہیں ملتی، انشورنس کمپنی اس رقم کی مالک بن جاتی ہے۔

اسی طرح اس میں  جہالت اور غرر ( دھوکا) بھی  پایا جاتا ہے،  اور جہالت اور غرر والے معاملہ کو شریعت نے  فاسد قرار دیا ہے، لہذا کسی بھی قسم کا  انشورنس کرنا  اور کرانا اور انشورنس کمپنی کا ممبر بننا شرعاً ناجائز  اور حرام ہے۔

مروّجہ تکافل کا طریقہ کار اورعدمِ جواز کی وجوہات:

  مروجہ انشورنس کے متبادل کے طور پر  بعض ادارے  جو ”تکافل“ کے عنوان سے نظام  چلارہے ہیں ، وہ بھی جائز نہیں ہے؛ کیوں کہ تکافل کے نظام کو متعارف کروانے والے اگرچہ  اس  کی بنیاد  وقف کے قواعد  پر قرار دیتے ہیں ، لیکن  اس نظام میں وقف کے  قواعد کی مکمل رعایت نہیں کی جاتی ،    ذیل میں  اس نظام کی چند بنیادی خرابیوں کا ذکر کیا جاتا ہے :

         1۔پہلی خرابی اس نظام میں  یہ ہے کہ:  مروجہ تکافل میں ابتداءً  وقف فنڈ قائم کرنے والے خود اپنا بھی تکافل کرواتے ہیں، اور اپنی ہی وضع کردہ  شرائطِ وقف کے تحت اپنے ہی موقوفہ مال سے  فوائد اٹھاتے ہیں ، جب کہ  نقود کا وقف بذاتِ خود  محلِ نظر ہے، اگر تعامل کی وجہ سے اسے درست مان بھی لیا جائے  تو نقود کا وقف کرنے والا  خود اپنی  وقف کردہ منقولی  شے (نقود  وغیرہ) سے نفع نہیں اٹھاسکتا،  یعنی منقولی اشیاء میں ”وقف علی النفس “ درست نہیں ہے، جب کہ مروّجہ تکافل کے نظام میں منقولی اشیاء کا وقف پہلے اپنی ذات یا صرف اغنیاء پر ہو سکتا ہے، اُس کے بعد وجوہِ خیر کے لیے ہو گا ، یعنی جو شخص پریمیم ادا کرتا ہے وہ واقف ہے اور وہ اپنا وقف شدہ مال پہلے اپنے ہی اوپر وقف کر رہا ہے جو بالآخر وجوہِ خیر کے لیے ہو گا، لیکن فقہاء کرام کی صراحت کے مطابق واقف کا مالِ وقف سے ذاتی فائدہ اٹھانا جائز نہیں ہے۔ 

         2۔دوسری خرابی اس نظام میں  یہ ہے کہ:مروجہ تکافل کے نظام میں عقد کی نسبت  کمپنی (شخصِ قانونی) کی طرف ہوتی ہے، جوکہ ایک فرضی اور معنوی چیز ہے، خارج میں اس کا کوئی وجود نہیں  ہے، جب کہ عقد کرنے والوں کا عاقل ، بالغ ہونا ضروری  ہے، اور ظاہر ہے کہ شخصِ قانونی میں ان صفات کا پایا  جانا ممکن نہیں ہے،  جس کی بنا پر تمام معاملات حقیقت میں کمپنی کے ڈائریکٹر ہی سرانجام دیتے ہیں ، چناچہ وہ ڈائریکٹر جب ایک  شخصِ قانونی (وقف فنڈ) کو ”رب المال“ اور دوسرے شخصِ قانونی  (کمپنی)  کو ”مضارب“ بناتے ہیں ، اس حال میں کہ دونوں کے متولی وہ خود ہوتے ہیں تو  نفس الامر اور حقیقت میں عقد کے دونوں  فریق یعنی ”رب المال“ اور ”مضارب“ وہ خود بنتے ہیں ، اس لیے کہ ڈائریکٹر حضرات ہی  کمپنی اور  وقف فنڈ کی نمائندگی کرتے ہیں ، گویا وہ یوں کہتے ہیں کہ  (وقف فنڈ کی طرف سے)  ہم مال مضاربت کے لیے دیتے ہیں ، اور (کمپنی کی طرف سے) ہم  مال مضاربت کے لیے وصول کرتے ہیں ، دوسری طرف عام  طور پر  ان ڈائریکٹرز ہی کو کمپنی کہا جاتا ہے،  نتیجتًا ایک ہی فردِ حقیقی خود ہی رب المال ٹھہرا اور خود ہی مضارب، جوکہ شرعاً درست نہیں ہے۔

 3۔۔ تیسری خرابی اس نظام میں  یہ ہے کہ:مروجہ تکافل کے نظام میں  چندہ کی رقم وقف کی ملکیت ہے اور شریعت کی رو سے اس رقم کا مالک کو واپس کرنا جائز نہیں ہے،  نہ کل کی واپسی جائز ہے، نہ ہی جز کی واپسی جائز ہے،  بلکہ  اس رقم کو وقف کی طرح   صرف وقف  کے مصالح اور مقاصد میں خرچ کیا جاسکتا ہے،  ایسی کوئی صورت نہیں کہ متولی، وقف کی ملکیت   واقف  کو واپس کردے،  یا چندہ دہندہ اس کو واپس لے لے،  جب کہ تکافل میں چندے کی رقم چندہ دہندگان کو مختلف  ناموں سے واپس کی جاتی ہے، جس کی شریعت میں کوئی نظیر نہیں  ہے۔

         4۔۔ چوتھی خرابی اس نظام میں  یہ ہے کہ:  اسلام کے نظامِ  کفالت کی بنیاد  خالص تبرع پر ہے،  جیسا کہ رفاہی اور خیراتی ادارے یہ کام انجام دے رہے ہیں، جب کہ مروجہ  تکافل کے نظام میں پالیسی ہولڈر اور وقف فنڈ کے درمیان ہونے والا عقد،  عقدِ معاوضہ کی حیثیت رکھتا ہے،  تو جس طرح انشورنس  عقدِ معاوضہ ہونے کی وجہ سے  سود ، قمار اور غرر جیسے مہلک گناہوں کا مجموعہ تھا،  اسی طرح تکافل میں بھی یہی خرابیاں پائی جاتی ہیں ۔

             لہذا کسی بھی انشورنس کمپنی یا مروجہ تکافل کمپنی  کے ساتھ کسی بھی  قسم کا معاہدہ کرنا اور اس کا ممبر بننا شرعاً جائز نہیں ہے، اور اگر معاملہ کرلیا   ہوتو ختم کروالیا جائے، نیز انشورنس کمپنی یا مروجہ تکافل کمپنی سے صرف اصل رقم وصول کی جاسکتی ہے، زائد رقم  وصول کرنا سرے سے جائز ہی نہیں ہے،  اور اگر وصول کرلی ہو تو اس زائد رقم کو   بغیر ثواب کی نیت کے  غرباء اور فقراء میں تقسیم کردیا جائے۔

قرآنِ کریم میں ہے:

"{يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِنْ عَمَل الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُون}[المائدة: 90]".

       ارشاد باری تعالی ہے:

"{وَأَخْذِهِمُ الرِّبَا وَقَدْ نُهُوا عَنْهُ وَأَكْلِهِمْ أَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ وَأَعْتَدْنَا لِلْكَافِرِينَ مِنْهُمْ عَذَابًا أَلِيمًا}[النساء: 161]".

شرح معاني الآثارمیں ہے:

" عَنْ عَمْرِو بْنِ يَثْرِبِيٍّ، قَالَ: خَطَبَنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: لَا يَحِلُّ لِامْرِئٍ مِنْ مَالِ أَخِيهِ شَيْءٌ إِلَّا بِطِيبِ نَفْسٍ مِنْهُ".

( کتاب الکراھة،2/ 313، ط: حقانیه)

حدیث مبارک میں ہے:

"عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: لَعَنَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ آكِلَ الرِّبَا، وَمُؤْكِلَهُ، وَكَاتِبَهُ، وَشَاهِدَيْهِ، وَقَالَ: هُمْ سَوَاءٌ".

(الصحیح لمسلم،کتاب المساقات،3/ 1219،دار احیاء التراث، بیروت)

         مشكاة المصابيح  میں ہے:

"وعن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: الربا سبعون جزءاً أيسرها أن ینکح الرجل أمه".

(باب الربوا،1/ 246،ط: قدیمی)

مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے:

"عن ابن سیرین قال: کل شيءٍ فیه قمار فهو من المیسر".

(کتاب البیوع والاقضیة،4/ 483،ط: مکتبة الرشد، ریاض)

       فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله: لأنه يصير قماراً)؛ لأن القمار من القمر الذي يزداد تارةً وينقص أخرى، وسمي القمار قماراً؛ لأن كل واحد من المقامرين ممن يجوز أن يذهب ماله إلى صاحبه، ويجوز أن يستفيد مال صاحبه وهو حرام بالنص".

(کتاب الحظر والاباحة،6/ 403، ط : سعید)

         بدائع الصنائع میں ہے:

"(منها) أن يكون مما لاينقل ولايحول كالعقار ونحوه، فلايجوز وقف المنقول مقصوداً لما ذكرنا أن التأبيد شرط جوازه، ووقف المنقول لايتأبد؛ لكونه على شرف الهلاك، فلايجوز وقفه مقصوداً إلا إذا كان تبعاً للعقار، بأن وقف ضيعة ببقرها وأكرتها وهم عبيده فيجوز، كذا قاله أبو يوسف، وجوازه تبعاً لغيره لايدل على جوازه مقصوداً، كبيع الشرب ومسيل الماء، والطريق أنه لايجوز مقصوداً ويجوز تبعاً للأرض والدار، وإن كان شيئاً جرت العادة بوقفه، كوقف المر والقدوم لحفر القبور، ووقف المرجل لتسخين الماء، ووقف الجنازة وثيابها". 

(کتاب الوقف،فصل فی الشرائط التی ترجع الی الموقوف،6/ 220، ط: سعید)

        العقود الدريه في تنقيح الفتاوى الحامديه میں ہے:

"وفي موضع آخر من الوقف من فتاوى الشلبي المذكور ما نصه: فإذا كان وقف الدراهم لم يرو إلا عن زفر، ولم يرو عنه في وقف النفس شيء فلا يتأتى وقفها على النفس حينئذٍ على قوله، لكن لو فرضنا أن حاكماً حنفياً حكم بصحة وقف الدراهم على النفس هل ينفذ حكمه؟ فنقول: النفاذ مبني على القول بصحة الحكم الملفق، وبيان التلفيق أن الوقف على النفس لايقول به إلا أبو يوسف، وهو لايرى وقف الدراهم، ووقف الدراهم لايقول به إلا زفر، وهو لايرى الوقف على النفس، فكان الحكم بجواز وقف الدراهم على النفس حكماً ملفقاً من قولين، كما ترى وقد مشى شيخ مشايخنا العلامة زين الدين قاسم في ديباجة تصحيح القدوري على عدم نفاذه، ونقل فيها عن كتاب توفيق الحكام في غوامض الأحكام: أن الحكم الملفق باطل بإجماع المسلمين. ومشى الطرسوسي في كتابه أنفع الوسائل على النفاذ مستنداً في ذلك لما رآه في منية المفتي، فلينظره من أراده اهـ".

(کتاب الوقف،1/ 109،ط : دار المعرفة)

       فتاوی شامی میں ہے:

"وظاهر ما مر في مسألة البقرة اعتبار العرف الحادث، فلايلزم كونه من عهد الصحابة، وكذا هو ظاهر ما قدمناه آنفاً من زيادة بعض المشايخ أشياء جرى التعامل فيها، وعلى هذا فالظاهر اعتبار العرف في الموضع، أو زمان الذي اشتهر فيه دون غيره فوقف الدراهم متعارف في بلاد الروم دون بلادنا، وقف الفأس والقدوم كان متعارفاً في زمن المتقدمين ولم نسمع به في زماننا، فالظاهر أنه لايصح الآن، ولئن وجد نادراً لا يعتبر؛ لما علمت من أن التعامل هو الأكثر استعمالاً، فتأمل".

(کتاب الوقف،4/ 364، ط: سعید)

فتح القدیر  میں ہے:

'' ثم إذا عرف جواز وقف الفرس والجمل في سبيل الله، فلو وقفه على أن يمسكه ما دام حياً إن أمسكه للجهاد جاز له ذلك ؛ لأنه لو لم يشترط كان له ذلك؛ لأن لجاعل فرس السبيل أن يجاهد عليه، وإن أراد أن ينتفع به في غير ذلك لم يكن له ذلك، وصح جعله للسبيل: يعني يبطل الشرط، ويصح وقفه''.

(كتاب الوقف،6/ 219،ط:دار الفکر)

بدائع الصنائع  میں ہے:

"(أما) شرائط الانعقاد فأنواع: بعضها يرجع إلى العاقد، وبعضها يرجع إلى نفس العقد، وبعضها يرجع إلى مكان العقد، وبعضها يرجع إلى المعقود عليه، (أما) الذي يرجع إلى العاقد فنوعان: أحدهما أن يكون عاقلاً، فلاينعقد بيع المجنون والصبي الذي لايعقل؛ لأن أهلية المتصرف شرط انعقاد التصرف، والأهلية لاتثبت بدون العقل فلايثبت الانعقاد بدونه … والثاني: العدد في العاقد، فلايصلح الواحد عاقداً من الجانبين في باب البيع إلا الأب فيما يبيع مال نفسه من ابنه الصغير".

(کتاب البیوع،5/ 135، ط: سعید)

         البحر الرائق  میں ہے:

"(قوله : ولا يملك الوقف) بإجماع الفقهاء، كما نقله في فتح القدير؛ ولقوله عليه السلام لعمر -رضي الله عنه-: «تصدق بأصلها لاتباع ولاتورث». ولأنه باللزوم خرج عن ملك الواقف وبلا ملك لايتمكن من البيع، أفاد بمنع تمليكه وتملكه منع رهنه، فلا يجوز للمتولي رهنه".

(کتاب الوقف،5/ 221، ط: دار الکتاب الاسلامی)

       فتاوی شامی میں ہے:

"والحاصل: أنه إن علم أرباب الأموال وجب رده عليهم، وإلا فإن علم عين الحرام لايحل له ويتصدق به بنية صاحبه".

(كتاب البيوع،باب البيع الفاسد،مطلب فيمن ورث مالا حراما،5/ 99،ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144304100445

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں