بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قسطوں پر پلاٹ فروخت کرنے کی شرائط، سودا کینسل ہونے کی صورت میں بروکر کی مزدوری کا حکم


سوال

میں تیسیر ٹاؤن میں پلاٹ کی خرید و فروخت کا کام کرتا ہوں، میرے پاس اس وقت 120 گز کے 18 پلاٹ ہیں، میں ان میں سے کچھ قسطوں پر دینا چاہتا ہوں، پلاٹ کی ویلیو ڈھائی لاکھ روپے کیش میں ہے، میں قسطوں پر ساڑھے چار لاکھ روپے میں فروخت کروں گا، تقریبا 35 ماہ سے 40 ماہ کی اقساط ہوں گی۔پوچھنا یہ ہے کہ:

1)میں قسطوں پر پلاٹ فروخت کر سکتا ہوں؟

2) میرا ارادہ یہ ہے کہ اگر کوئی قسطوں پر لے کر دوبارہ واپس کرنا چاہے تو  میں اس کو پورا ایڈوانس اور ساری اقساط بغیر کچھ کاٹے واپس کر دوں گا ، لیکن وقفے وقفے  کے ساتھ، اب جو بروکر دونوں پارٹیوں سے مزدوری لے گا اگر ہم وہ پارٹی کو واپس نہ کریں تو کوئی مسئلہ تو نہیں ہے؟یا پھر بروکر کی بروکری بھی سودا کینسل ہونے کے بعد پارٹی کو واپس کرنا  ضروری ہے؟

جواب

1) واضح رہے کہ قسطوں پر خرید و فروخت کے جائز ہونے کے لیے چند شرائط ہیں:

  • خرید و فروخت کی مجلس ہی میں قسطوں پر بیچی جانے والی چیز کا ثمن  ( قیمت )  متعین ہو ، یعنی یہ صورت نہ ہو کہ خریدار سے یہ کہا جائے کہ اگر تم نقد پر خریدو تو 250000 روپے میں اور اگر ادھار پر خریدو تو 450000 روپے میں دوں گااور ایک صورت متعین ہونے سے قبل دونوں جدا ہو جائیں۔
  • ثمن ادا کرنے کا  وقت اور ہر قسط کی مقدار   ابتدا  ہی میں متعین ہو۔
  • اگر خریدار مقررہ وقت پر قسط ادا نہ کرسکے تو اس سے زائد رقم کا مطالبہ نہ کیا جائے۔

صورتِ مسئولہ میں مذکورہ بالا شرائط کا لحاظ رکھتے ہوئے قسطوں پر پلاٹ کی خرید و فروخت جائز ہے۔

2)قسطوں پر سودا  طے ہو جانے کے بعد دونوں پارٹیوں نے بروکر کو جو مزدوری دی وہ بروکر کی ملکیت میں آگئی، اب اگر خریدار سودا ختم کر کے پلاٹ واپس کرتا ہے تو سائل پر لازم ہے کہ ایڈوانس رقم  اور اس کی ادا کی ہوئی قسطیں واپس کردے ، اس کے علاوہ بروکر کی مزدوری  جو خریدار نے ادا کی تھی اسےلوٹانا سائل یا بروکر کسی کے ذمہ لازم نہیں ہے۔

مبسوطِ سرخسی میں ہے:

"وإذا عقد العقد على أنه إلى أجل كذا بكذا وبالنقد بكذا أو قال إلى شهر بكذا أو إلى شهرين بكذا فهو فاسد؛ لأنه لم يعاطه على ثمن معلوم ولنهي النبي - صلى الله عليه وسلم - عن شرطين في بيع وهذا هو تفسير الشرطين في بيع ومطلق النهي يوجب الفساد في العقود الشرعية وهذا إذا افترقا على هذا فإن كان يتراضيان بينهما ولم يتفرقا حتى قاطعه على ثمن معلوم، وأتما العقد عليه فهو جائز؛ لأنهما ما افترقا إلا بعد تمام شرط صحة العقد".

(كتاب البيوع،باب البيوع الفاسدة13/ 7-8،ط:دار المعرفة)

درر الحكام في شرح مجلة الاحكام میں ہے:

"(المادة 245) البيع مع تأجيل الثمن وتقسيطه صحيح يصح البيع بتأجيل الثمن وتقسيطه بشرط أن يكون:

أولا: بخلاف جنسه.

وثانيا: أن يكون دينا لا عينا ليس للبائع أن يطالب بالثمن قبل حلول الأجل...
(المادة 246) يلزم أن تكون المدة معلومة في البيع بالتأجيل والتقسيط الأجل يتعين بكذا سنة أو شهرا أو يوما أو إلى الشهر الفلاني وما أشبه ذلك فإذا عقد البيع على أجل مجهول فسد البيع".

(الكتاب الأول في البيوع،الباب الثالث: في بيان المسائل المتعلقة بالثمن،الفصل الثاني: في بيان المسائل المتعلقة بالنسيئة والتأجيل،1/ 228-227، ط:دار الجیل)

العقود الدریۃ فی تنقيح الفتاوى الحامدیۃ میں ہے:

"(سئل) في دلال سعى بين البائع والمشتري وباع البائع المبيع بنفسه والعرف أن الدلالة على البائع ثم إن المشتري رد المبيع على البائع قام البائع يطالب الدلال بالدلالة التي دفعها له فهل ليس له ذلك؟

(الجواب) : نعم ذكر في الصغرى دلال باع ثوبا وأخذ الدلالة ثم استحق المبيع أو رد بعيب بقضاء أو غيره لا تسترد الدلالة وإن انفسخ البيع؛ لأنه لم يظهر أن البيع لم يكن فلا يبطل عمله عمادية من أحكام الدلال".

(كتاب البيوع1/ 247، ط:دار المعرفة)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144304100846

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں