بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

انسٹا گرام سے کمائی کرنے/اس سے حاصل شدہ آمدنی اورعورت کا سوشل میڈیا پر تعلیم دینے کا حکم


سوال

کیا انسٹا گرام سے پیسے کمانا جائز ہے؟مجھے پیسوں کی ضرورت ہے اور فی الحال میری تعلیم اتنی نہیں ہے کہ مجھے کسی اچھی جگہ جاب مل سکے یا میں خود کوئی کاروبار شروع کر سکوں ،تو ایسے میں مجھے یوٹیوب چینل بنانے کا خیال آیا، لیکن میں نے آپ کے فتاوی میں پڑھا ہے کہ یوٹیوب سے حاصل ہونے والی کمائی ناجائز ہے ،اس لئے میں نے سوچا  کہ انسٹاگرام سے بھی پیسے کمائے جا سکتے ہیں، نیز یہ کہ میں انسٹاگرام پہ اگر اکاونٹ بناوں گی تو کھانا پکانے کا یا پھر اسلامی تعلیمات کا بناؤں گی ۔آپ ذرا راہ نمائی کر دیں کہ :

(1)انسٹاگرام سے پیسے کیسے کمائے جاتے ہیں ؟نیز کیا وہ کمائی جائز ہو گی؟ 

(2) ذکر کردہ مقاصد کے لیے انسٹا گرام  پر اکاؤنٹ بنانا شرعاً جائز ہے یا نہیں ؟

(3) یوٹیوب سے پیسے کمانے کو بعض علماء جو جائز کہتے ہیں کیا وہ غلط کہتے ہیں؟

جواب

(1) ہماری معلومات کے مطابق انسٹا گرام سے کمائی کرنے کے مختلف طریقےہیں ،ذیل میں انسٹا گرام کا کچھ تعارف اور بذریعہ انسٹا گرام کمائی کے  چند مشہور  ومروج طریقے  مع ان کے شرعی احکام  ذکر کیے جارہے ہیں :

انسٹا گرام اور اس سے کمائی کرنے کے مختلف طریقوں کا کچھ تعارف 

انسٹا گرام کیا ہے؟

انسٹاگرام سوشل میڈیا کا تصویر اور وڈیو شیئرنگ کا ایک ایسا پلیٹ فارم ہے     جس کے ذریعے تصاویر اور وڈیوز دوسروں کو بآسانی  شیئر کی جاسکتی ہیں اورجہاں دنیا کی ساری مشہور شخصیات  موجود ہیں۔

انسٹاگرام سے پیسے کمانے کے چند مشہور طریقے :

(1) انفلوئنسر،(2) ایفلیٹ مارکیٹنگ ،(3) ای-کامرس (پروڈکٹ بیچنا)(4) اسکل سروس / ہنر بیچنا،(5) مونیٹائزیشن۔

(1)   انفلوئنسربن کر پیسہ کمانا:

انفلوئنسر وہ شخص ہو تا ہے جو مختلف سوشل میڈیا  پلیٹ فارمز پر مشہور ہو تا ہےاور  اس نے مختلف سوشل میڈیا ایپس پر اپنی ایک پہچان بنائی ہوتی ہے،جس کی پوسٹ یا کمنٹ کا عوام کو بہت انتظار رہتا ہے،  انفلوئنسرز پوسٹس، ریلز، اور سٹوریز کی شکل میں مواد بنا کر  مختلف برانڈز کی تشہیر کرتے ہیں اوراپنی آڈیئنس (عوام ،تماشائی ،دیکھنے والوں)کیلئےایک ٹرینڈ سیٹ کرتے ہیں  ۔

انفلوئنسر کیسے پیسے کماتے ہیں؟

انفلوئنسراپنے مشہور ہونے کی وجہ سے کماتے ہیں،کچھ انفلوئنسر اپنی سوشل پوسٹس سے پیسے بناتے ہیں، کچھ برانڈز کی پروموشن سے پیسے کماتے ہیں،انفلوئنسر ہمیشہ اپنی آڈیئنس پر انحصار کرتا ہے اس کی آڈیئنس ہی اس کا سب سے بڑاسرمایہ ہوتے ہیں ، جن کے ذریعے وہ پیسے  اورشہرت  کماتا ہے۔

ایک انفلوئنسرجب کسی برانڈ کی یا کسی پراڈکٹ کی پروموشن کرتا ہے تو وہ ادارہ یا کمپنی جس کے لئے وہ یہ پروموشن کر رہا ہوتا ہے وہ انفلوئنسر کو معاوضہ دیتی ہیں، جس کی فین فالوئنگ زیادہ ہوتی ہے اس کو زیادہ پیسے  ملتے ہیں۔

(2)   ایفلیٹ مارکیٹنگ:

 ایفلیٹ مارکیٹنگ کے ذریعے  کسی بھی برانڈ کی سیلز  کوبڑھانے اور اس برانڈ کے بارے میں آگاہی پھیلانے کے لیے   آڈئینس کو   بذریعہ لِنک کسی پراڈکٹ  کے بارے میں معلومات فراہم کی جاتی ہیں، اور اس کے بدلے میں  اپنے حصے کا کمیشن حاصل کیا جاتا ہے، جیسے کہ ایمازون،درزا، علی بابا وغیرہ،  اگر کو ئی بھی شخص وہ پروڈکٹ ایفلیٹ(مذکورہ کام کرنے والے شخص) کے دیے ہوئے لنک سے خریدتا ہے تو  فروخت کنندہ  کو اس پروڈکٹ کی سیل کے عوض  کچھ فیصد منافع دیا جاتا ہے،اس کام   کو ایفلیٹ مارکیٹنگ  اور یہ کام کرنے والے کو  Affiliateکہتے ہیں۔ 

(3)  ای-کامرس اسٹور :

اب تک یہ معلوم ہوا ہے کہ انسٹاگرام پر پیسہ کمانے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ دوسرے برانڈز کے ساتھ کام کرکے ان کی  مصنوعات بیچی جائیں اور معاوضہ حاصل کیا جاۓ، لیکن اس کے علاوہ ذاتی طور بھی ہر شخص اپنا علیحدہ برانڈ  اور اسٹور قائم کرکے اپنی  مصنوعات، سروسز یا ڈیجیٹل آئٹمز بیچ سکتا ہے، اسی کو ای-  کامرس کہا جاتا ہے۔

(4)  اسکل (ہنر) بیچنا:

کوئی بھی شخص انسٹاگرام پراپنی اسکل(مہارت ،ہنر) بیچ کر بھی پیسے کما سکتا ہے،اگر کسی شخص کے پاس  ویب ڈیزائننگ، گرافکس ڈیزائننگ، ویڈیو ایڈیٹنگ، سرچ انجن آپٹیمائزیشن،سوشل میڈیا مارکیٹنگ،ای-میل مارکیٹنگ ،اسکلز میں سے کوئی بھی ایک اسکل  ہے تو وہ کسی بھی کمپنی اور ادارے کو اس کی مطلوبہ خدمت فراہم کرکے پیسے کما سکتا ہے۔

(5)  مونیٹائزیشن:

 یوٹیوب کی طرح انسٹاگرام نے بھی مونیٹائزیشن سروس فراہم کردی ہے،(جو  فی الحال تمام لوگوں کے لیے نہیں ہے) جس کے نتیجےمیں اب  انسٹاگرام اکاؤنٹ پر بھی (اکاؤنٹ ہولڈر کی مرضی کے مطابق ) ویورز مخصوص تعداد تک پہنچنے کے بعدویڈیو کے دوران  مختلف کمپنیوں کے ایڈز چلیں گے، جس سے اکاؤنٹ ہولڈر کی  کمائی میں اضافہ ہو گا۔

البتہ مونیٹائزیشن کے ذریعےکی جانے والی کمائی کا انحصار انسٹاگرام انتظامیہ کے قواعد کے مطابق اس ویڈیو کو ملنے والے views کی تعداد یا "Monetizable Plays”پرہوگا۔اکاؤنٹ ہولڈر کو ہر viewسے پیدا ہونے والی اشتہاری آمدنی کا 55% ملے گا. جو اس کے بینک اکاؤنٹ میں ماہانہ ادا کیا جائے گا۔

تاہم یوٹیوب اور انسٹا گرام سے اشتہارات کے ذریعے پیسے کمانے کا جو طریقہ ہے  اس میں (ہماری معلومات کے مطابق)دو وجوہ سے بنیادی فرق ہے:

(الف)یوٹیوب انتظامیہ کی جانب سے  چینل بنانے والے کو فیس کی ادائیگی کے بعد اشتہارات بند  کرنے کا اختیار تو دیا جاتا ہے،لیکن اشتہارات بند کروانے کی صورت میں یوٹیوب سے کمائی نہیں کی جاسکتی ہے،لہٰذا اگر یوٹیوب کے ذریعے آمدن مقصود ہو تو اس پر لازماً اشتہارات کھلوانے پڑتے ہیں ،جب کہ انسٹا گرام  اکاؤنٹ  پر اشتہارات چلانے کا مکمل اختیار دیا جاتا ہے اور اشتہارات بند کروانے کی صورت میں  کمائی کے دوسرے طریقے بھی موجود ہوتے ہیں ۔

(ب)یوٹیوب پر  اشتہارات چلانے کے بعد   ان میں  دکھاۓ جانے والے مناظر اور ان مناظر کے ذریعے کی جانے والی  کسی بھی قسم کی تشہیر  میں یوٹیوب انتظامیہ کی جانب سے چینل والے کو یہ اختیار نہیں ہوتا کہ کہ وہ ان اشتہارات کی جانچ کرکے انہیں شرعی دائرۂ کار میں لاسکے ،جب کہ انسٹاگرام پر اکاؤنٹ بنانے کے بعد اکاؤنٹ ہولڈر کو جہاں  اشتہارات بند کروانے کا اختیار حاصل ہوتا ہے،وہیں اپنی مرضی کے اشتہار چلوانے کا اختیار بھی حاصل ہوتا ہے۔

انسٹا گرام سے کمائی کا شرعی حکم:

انفلوئنسر اور ایفلیٹ مارکیٹینگ میں جب کسی برانڈ   کی  مختلف اشیاء کی تشہیر کرکے انہیں فروخت  کیا جاۓ یا ای کامرس کی صورت میں اپنا ذاتی اسٹور بنا کر آن لائن اشیاء فرخت کی جائیں تو مذکورہ تینوں طریقوں میں   اس بات کا  یقینی خیال رہے کہ:(1)محض حلال اور جائز اشیاء ہی  کی جائز طریقے سے تشہیر اوربیع کی جاۓ،کسی غیر شرعی چیز کی تشہیر کرنایاشرعاً جائز اشیاء کی ناجائز طریقے سے تشہیر  اور بیع  کرنا درست نہیں۔

(2) اسی طرح اس تشہیر کے لیے متعلقہ برانڈ سے کوئی ناجائز معاہدہ نہ کیا جاۓ۔

(3)فروخت کی جانےوالی چیز  سے متعلق  مکمل تفصیل ،کوالٹی  ، مقدار  اور قیمت وغیرہ بیان کردی  جاۓ  ،اسی طرح اگر قیمت کی ادائیگی ادھار ہو تو اس کو بھی  معلوم  مدت کے بیان کے ساتھ واضح کردیا جاۓ۔

(4)اگرفروخت کی جا نے والی چیز اگرفروخت کنندہ کی ملکیت میں نہیں ہے اور وہ محض اشتہار اورتصویردکھاکر کسی کو وہ سامان فروخت کرتا ہے (یعنی سودا کرتے وقت یوں کہے کہ "فلاں چیز میں نے آپ کو اتنے میں بیچی"، وغیرہ) اور بعد میں وہ سامان کسی اور دکان،اسٹوروغیرہ سے خرید کردیتا ہو تو یہ صورت بائع کی ملکیت میں "مبیع" موجود نہ ہونے کی وجہ سے جائز نہیں ہے؛ اس لیے کہ جو چیز فروخت کرنا مقصود ہو وہ بائع کی ملکیت میں ہونا شرعاً ضروری ہوتا ہے۔عموماً آن لائن کاروبار میں اس  شرط کا دھیان نہیں رکھا جاتا اور اکثر و بیشتر   فروخت کی جانے والی چیز بائع یعنی فروخت کنندہ کی ملکیت نہیں ہوتی ہے،بلکہ مختلف مصنوعات کی تصاویر ویب سائٹ یا اپنے پیج پر لگادی جاتی ہیں  اور کسٹمر سے آرڈر موصول ہونے کے بعد  ان  مصنوعات کے اصل مالک سے مطلوبہ چیز خرید کر  کسٹمر کو   بھیج دی جاتی ہے یا اصل مالک کو کسٹمر کا پتہ دے کر اس کو چیز بھیجنے کا کہہ دیا جاتا ہے،ایسی تمام صورتیں جن میں مصنوعات کو  خود خریدنے اور قبضہ کرنے سے پہلے ہی کسٹمر کو فروخت کردیا جا تا ہے ،شرعاً جائز نہیں ہیں۔ 

اس کے جواز کی صورتیں درج ذیل ہوسکتی ہیں:

(الف)  فروخت کنندہ  خریدارسے یہ کہہ دے کہ یہ سامان میری ملکیت میں نہیں  ہے، اگر آپ کو چاہیے تو میں اسےکسی دوسرے شخص سے خرید کرآپ کو اتنی قیمت میں فروخت کروں گا،پھر اس چیز کو خرید کر خود یا اپنے وکیل کے ذریعے اس پر قبضہ کرلے،  یوں فروخت کنندہ اس سامان کوخرید کر اپنے قبضہ میں لے کر باقاعدہ سودا کرکے مشتری کو فروخت کرے تو یہ درست ہے۔

(ب) ویب سائٹ وغیرہ پر مصنوعات کی تشہیر کرنے والا فرد  ان مصنوعات کے اصل مالک کے ساتھ  بروکری کا معاہدہ کرلے،اور جب اس کے پاس آرڈر آجاۓ تو مصنوعات کے مالک کو کسٹمر کا پتہ اور دیگر تفصیلات بھیج کر فی آئٹم یا فی کسٹمر کے حساب سے اپنا کمیشن وصول کرلے۔

(5)  کرنسی، سونا اور چاندی کی آن لائن خرید و فروخت شرعاً درست نہیں ہے، کیوں کہ ان اشیاء کی بیع درست ہونے کے لیے ضروری ہے کہ دونوں  جانب کی  چیزوں پر  فی الفور قبضہ کیا جاۓ جو کہ آن لائن ممکن نہیں ہے۔البتہ  اس کے لیے کسی کو وکیل بنایا جاسکتا ہے جو   دوسرے فریق کے پاس جاکر معاملہ کرے اور دونوں جانب کی چیزوں پر اسی مجلس میں وکیل کے ذریعے قبضہ ہوجاۓ۔

(6) جواز کی تمام صورتوں میں خریدار کو مطلوبہ چیز ملنے کے بعد خیارِ رؤیت حاصل ہوگا، یعنی جب مطلوبہ چیز خریدار کو مل جائے تو دیکھنے کے بعد اس کی مطلوبہ شرائط کے مطابق نہ ہونے کی صورت میں خریدار کو مذکورہ چیزواپس کرنے کا مکمل اختیار حاصل ہوگا۔

اگر مذکورہ جائز صورتوں میں سے کسی صورت کے مطابق کسی چیز کی  خرید وفروخت ہوئی ہو تو اس کا جواز ظاہر ہے۔اور اگر ممنوعہ صورت کے مطابق سودا ہواہو تو ایسا سودا کینسل کرنے کا حکم ہے، البتہ اگر خریدی جانے والی چیز، خریدار کے قبضے میں آچکی ہو اور اس نے قیمت بھی ادا کردی ہو تو اب اس چیز پر خریدار کی ملکیت ثابت ہوجائے گی، تاہم ضروری ہوگا کہ  آئندہ شرعی احکام کا لحاظ رکھ کر کوئی بھی معاملہ کیا جائے ۔

اور اسکل سروس  چوں کہ باہمی کرایہ داری کا معاملہ ہے اس  لیے  اس میں اجارہ کی بنیادی  شرائط کا پایا جانا ضروری ہے،پہلی  بنیادی شرط ہے کہ یہ خدمات  کسی ایسے  کام کے لیے نہ ہوں جو شرعاً ممنوع ہے، چناں چہ  اس طریقے کے مطابق  اگر کوئی بھی ایسا کام کیا جاۓ کہ جس میں کسی بھی اعتبار سے  جان دار کی تصویر یا میوزک وغیرہ  کا استعمال  کیا جائے تو  یہ کام  کرنا جائز نہ ہو گا اور نہ ہی اس کی آمدنی حلال ہو گی(2)  کمپنی اور کام کرنے والے شخص کے درمیان معاہدے کی مدت ( خواہ طویل مدت ہو یا مختصر) اور کام کے عوض دی جانے والی اجرت متعین ہو،  (3)  جس جائز سروس کی فراہمی کا معاہدہ کیا جاۓ وہ سروس فراہم بھی کی جاسکتی ہو۔ 

اور اگر  انسٹا گرام  پر  اکاؤنٹ بناکر  مونیٹائزیشن  کے ذریعے  پیسے کمانا مقصود ہے،تو ایسی صورت میں کمائی کے جواز کے  لیے شرعاً درج ذیل  شرائط کا پایا جانا ضروری ہے:

٭انسٹا گرام اکاؤنٹ پر ویڈیو اَپ لوڈ کرنے والا شخص کسی  جان د ار  کی تصویر والی ویڈیو اپ لوڈ  نہ کرے

٭ اس ویڈیو  میں  موسیقی  نہ ہو

٭دکھایا جانے والااشتہار  یا  غیر شرعی نہ ہو  

  ٭ کسی بھی غیر شرعی شے کا اشتہار نہ ہو 

٭کوئی غیر شرعی معاہدہ نہ  کرنا پڑتا ہو

 تاہم  مونیٹائزیشن  کے ذریعہ کمائی  کی صورت شرعًا اجارہ کا معاملہ ہے، جو انسٹا گرام انتظامیہ اور اکاؤنٹ ہولڈر کے درمیان ہوتا ہے اور انسٹا گرام ،اکاؤنٹ ہولڈر کو اس کے  اکاؤنٹ کے استعمال پر  (ایڈ نشر کرنے کی صورت میں)  اجرت دیتا ہے،لیکن  یہ اجرت اس وجہ سے جائز نہیں ہے کہ اگر   مونیٹائزیشن میں کوئی غیر شرعی اشتہار وغیرہ نہ  دکھایا جاۓ، بل کہ چلنے والے تمام  ایڈز اگر   شرعی دائرے کے اندر ہوں ، اور نہ ہی انتظامیہ سے کوئی غیرشرعی معاہدہ کیا جاۓ،  تب بھی یہ معاملہ شرعًا اجارہ فاسد ہ ہوگا اور  حاصل شدہ اجرت مجہول ہونے کی وجہ سے ناجائز اور حرام  ہوگی ،کیوں کہ ایڈز نشر کرنے کی صورت میں  اکاؤنٹ ہولڈر کو ملنے والی اجرت مجہول ہوتی ہے،  اور اکاؤنٹ ہولڈر کو انہی ایڈز کی اجرت ملتی ہے،  کیوں کہ انتظامیہ کوئی   متعین اجرت  طے نہیں کرتی کہ کل اجرت کتنی ہوگی؟،   بلکہ   ہرview سےحاصل ہونے والی تمام  کمائی کا  55 فیصد اجرت طے کرتی ہےاور   کل اجرت مجہول ہوتی ہے تو  اس کمائی کا55فیصد بھی مجہول ہوتا ہے، اس لیے مونیٹائزیشن کے ذریعے پیسے کمانا کسی صورت جائز نہیں ہے۔

 اگر  مونیٹائزیشن کے علاوہ ،مذکورہ بالا  طریقوں سے ان کی متعلقہ  شرائط کی پاسداری کرتے ہوۓ انسٹاگرام سے پیسے کماۓ جائیں تو یہ جائز ہے ،بصورتِ دیگر کسی بھی طریقے کی متعلقہ شرائط میں سے  کسی بھی  ایک شرط کے نہ پاۓ جانے کی  صورت میں انسٹا گرام سے  اس کے ذریعے پیسے کمانا جائز نہیں ہے۔

نیز یہ بھی واضح رہے کہ مطلقاً مال کمانا فرض اور واجب عبادت نہیں ہے،کہ جس طریقے سے  دل چاہے مال کمایا جاۓ،چاہے وہ طریقہ حلال ہو حرام،بلکہ حلال اور جائز طریقے سے مال کمانا  عین عبادت ہے، جائز طریقے سے کمایا جانے والا تھوڑا مال ،حرام اور مشتبہ طریقے سے کماۓ جانے والے کثیر مال سے کئی گناہ بہتر ،بابرکت  اور باعثِ اجر ہے،جب کہ حرام یا مشتبہ مال کمانا عبادت تو کجا اُلٹا سخت گناہ ،اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کا باعث اور   اپنے ساتھ ہی دھوکہ  اور فریب ہے اور ”نیکی برباد گناہ لازم“ کا مصداق ہے۔

قرآن مجید میں فرمانِ باری تعالیٰ ہے:

"وَتَعاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوى ‌وَلا ‌تَعاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوانِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقابِ(المائدة:2)"

ترجمہ:"اور نیکی اور تقویٰ میں ایک دوسرے کی مدد کرتے رہو اور گناہ و زیادتی میں ایک دوسرے کی اعانت نہ کرو اور اللہ تعالیٰ سے ڈرا کرو ،بلاشبہ اللہ تعالی سخت سزا دینے والا ہے."(بیان القرآن )

سنن ترمذی میں ہے:

"عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «يا أيها الناس، إن الله طيب ولا يقبل إلا طيبا وإن الله أمر المؤمنين بما أمر به المرسلين»، فقال: {يا أيها الرسل كلوا من الطيبات واعملوا صالحا إني بما تعملون عليم} [المؤمنون: 51]، وقال: {يا أيها الذين آمنوا كلوا من طيبات ما رزقناكم} [البقرة: 172] قال: «وذكر الرجل يطيل السفر أشعث أغبر يمد يده إلى السماء يا رب، يا رب ‌ومطعمه ‌حرام، ومشربه حرام، وملبسه حرام، وغذي بالحرام، فأنى يستجاب لذلك»."

(أبواب تفسیر القرآن، ومن سورۃ البقرۃ،128/2,ط:قديمي)

مسندِ احمد میں ہے:

"عن طاوس، قال: سمعت ابن عباس، قال: " أما الذي نهى عنه رسول الله صلى الله عليه وسلم: أن يباع حتى يقبض فالطعام " وقال ابن عباس برأيه: " ولا ‌أحسب ‌كل ‌شيء إلا مثله."

(‌‌ومن مسند بني هاشم،‌‌ مسند عبد الله بن العباس بن عبد المطلب عن النبي صلى الله عليه وسلم، 404/3، ط:مؤسسة الرسالة)

ہدایہ میں ہے:

"قال: "ولا يجوز الاستئجار على الغناء والنوح، وكذا سائر الملاهي"؛ لأنه استئجار على ‌المعصية والمعصية لا تستحق بالعقد."

(كتاب الإجارات،‌‌باب الإجارة الفاسدة،238/3،ط:دار إحياء التراث العربي)

وفیہ ایضاً:

"قال ابن مسعود: صوت اللهو و الغناء ينبت النفاق في القلب كما ينبت الماء النبات. قلت: و في البزازية: إستماع صوت الملاهي كضرب قصب و نحوه حرام ؛لقوله عليه الصلاة و السلام: استماع الملاهي معصية، و الجلوس عليها فسق، و التلذذ بها كفر؛ أي بالنعمة لا شكر فالواجب كل الواجب أن يجتنب كي لا يسمع."

(كتاب الحظر والإباحة، 348،49/6،ط:سعید)

احکام القرآن للجصاص میں ہے:

"وقوله تعالى وتعاونوا على البر والتقوى يقتضي ظاهره إيجاب التعاون على كل ما كان تعالى لأن البر هو طاعات الله وقوله تعالى ولا تعاونوا على الإثم والعدوان نهي عن معاونة غيرنا على معاصي الله تعالى."

(المائدۃ : 296/3، ط: داراحیاء التراث العربي)

فتاوی عالمگیری  میں ہے:

"ومنها أن يكون مقدور الاستيفاء - حقيقة أو شرعا فلا يجوز استئجار الآبق ولا الاستئجار على المعاصي؛ لأنه استئجار على منفعة غير مقدورة الاستيفاء شرعا.... ومنها أن تكون المنفعة مقصودة معتادا استيفاؤها بعقد الإجارة ولا يجري بها التعامل بين الناس فلا يجوز استئجار الأشجار لتجفيف الثياب عليها..... ومنها أن تكون الأجرة معلومةً."

کتاب الإجارۃ , الباب الأول فی تفسیر الإجارۃ و رکنها و الفاظها و شرائطها، 411/4، ط: رشيدية)

المحیط البرہانی میں ہے:

"يجب أن يعلم أن شراء مالم يره المشتري جائز عندنا، وصورة المسألة: أن يقول الرجل لغيره: بعت منك الثوب الذي في كمي هذا، والصفة كذا، أو ‌الدرة ‌التي ‌في ‌كفي وصفته كذا، أو لم يذكر الصفة، أو يقول: بعت منك هذه الجارية المتبقية، وأما إذا قال بعت منك مافي كمي هذا، أو مافي كفي هذا من شيء، فهل يجوز هذا البيع؟ لم يذكره في «المبسوط» . قال عامة مشايخنا: إطلاق الجواب يدل على جوازه عندنا، ومنهم من قال: لا يجوز ههنا وللمشتري لما لم يره له خيار إذا رآه، الاصل في جواز هذا العقد قوله صلى الله عليه وسلّم «من اشترى شيئاً لم يره فهو بالخيار إذا رآه»."

(كتاب البيع، ‌‌الفصل الثالث عشر: في خيار الرؤية،531/6، ط:دار الکتب العلمیة)

فتاوی شامی میں ہے:

"ثم التسليم يكون بالتخلية على وجه يتمكن من القبض بلا مانع ولا حائل. وشرط في الأجناس شرطا ثالثا وهو أن يقول: خليت بينك وبين المبيع فلو لم يقله أو كان بعيدا لم يصر قابضا والناس عنه غافلون، فإنهم يشترون قرية ويقرون بالتسليم والقبض، وهو لا يصح به القبض على الصحيح."

(كتاب البيوع،561،62،ط:سعيد)

وفیہ ایضاً:

"وشرط ‌المعقود ‌عليه ‌ستة: كونه موجودا مالا متقوما مملوكا في نفسه، وكون الملك للبائع فيما يبيعه لنفسه، وكونه مقدور التسليم فلم ينعقد بيع المعدوم وما له خطر العدم."

(كتاب البيوع،505/4،ط:سعید)

وفیہ ایضاً:

"(لا) يصح اتفاقا ككتابة وإجارة و (‌بيع ‌منقول) قبل قبضه ولو من بائعه."

(كتاب البيوع،‌‌باب المرابحة والتولية، ‌‌فصل في التصرف في المبيع والثمن قبل القبض والزيادة والحط فيهما وتأجيل الديون ،147/5،ط:سعيد)

مبسوطِ سرخسی میں ہے:

"ولأن ‌هذا ‌العقد ‌مبادلة الثمن بالثمن، والثمن يثبت بالعقد دينا في الذمة، والدين بالدين حرام في الشرع لنهي النبي - صلى الله عليه وسلم - عن بيع الكالئ بالكالئ فما يحصل به التعيين، وهو القبض لا بد منه في هذا العقد، وكان ينبغي أن يشترط مقرونا بالعقد؛ لأن حالة المجلس تقام مقام حالة العقد شرعا للتيسير."

(كتاب البيوع،كتاب الصرف، ج:14،ص:3، دارالمعرفة)

(2)  واضح رہے کہ  عورت کا سوشل میڈیا پر  چینل یا اکاؤنٹ  بنانا،جس میں بذریعہ آڈیو اسلامی تعلیمات بتائی جائیں  یا کھانا پکانے کے طریقے  سکھاۓ جائیں یا اس کے علاوہ کسی  بھی   دوسرےمباح  مقصد کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال کیا جاۓ  ، جس میں اس کی آواز غیر محرم بھی سنیں  ،اگرچہ فی نفسہ جائز ہے،تاہم شریعت میں بعض امور ایسے ہیں جو فی نفسہ تو جائز ہیں، لیکن  ان جائز کاموں سے بھی فتنے کا سبب بننے کے اندیشے کی بنا پر روکا گیا ہے ، جس کو شریعت میں "سدًّا للذرائع" سے تعبیر کیا جاتا ہے،  یعنی ایسے امور جو اگرچہ فی نفسہ تو جائز ہوں، لیکن ان کے اختیار کرنے سے  کسی ناجائز اور حرام کام  میں پڑنے کا قوی اندیشہ ہو ، تو صرف فتنے اور گناہ میں پڑنے کے اندیشہ کی بنا پر ایسے جائز کاموں سے بھی  روک دیا جاتاہے ۔ لہٰذا ایسے کاموں سے یقیناً خود بھی بچنا چاہیے اور دوسروں کو بھی اس سے بچنے کی تلقین کرنی چاہیے۔

  انہیں میں سے ایک   مسئلہ عورت کی آواز کا  ہے  ،عورت کی آواز کے ستر ہونے اور نہ ہونے میں اختلاف موجود ہے اور صحیح بات یہ ہے کہ فی نفسہٖ عورت کی آواز کا پردہ نہیں ہے،  لیکن اگر عورت کی آواز سے لذت حاصل کیے جانے کا امکان ہو یا کسی بھی شخص کے فتنے میں پڑجانے کا اندیشہ ہوتو ایسی صورت میں عورت کی آواز سننا ناجائز ہوگااورعورت کا اپنی آواز کو پردے میں رکھنا لازمی ہوگا ۔  یہی وجہ ہے کہ شریعتِ مطہرہ میں عورت کے لیے اذان کا حکم نہیں ہے ،نیز   دیگر تسبیحات اور ذکر و اذکار بھی عورت کو  پست آواز سے کرنے کا حکم دیا گیاہے ۔ چناں چہ    خود  اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآنِ  کریم میں ازواج مطہرات کو بھی ضرورت کی بنا پر مردوں سے بات کرتے وقت  آواز کو نرم رکھنے سے منع فرمایا تھا ۔

 ارشاد باری تعالیٰ ہے :

"فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَيَطْمَعَ الَّذِي فِي قَلْبِهِ مَرَضٌ ."( الأحزاب : 32)

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں  سائلہ کا انسٹا گرام اکاؤنٹ  بنا کر اس  کے ذریعے اسلامی تعلیمات یا کھانا پکانے کا طریقہ سکھانا یا کوئی اور مباح کام  کرنا ،  کئی مفاسد کی بناء پر شرعًا جائز  نہیں؛ کیوں کہ اس میں  عورت کی آواز کا کسی ضرورتِ شدیدہ کے بغیر,  نامحرم مرد تک پہنچنا لازم آئے گا،جوفتنے سے خالی نہیں، جیسا اوپر بیان کیا گیا ۔  اور  ضرورتِ شدیدہ کی تفصیل یہ ہے کہ  ایسے حالات پیش آجائیں  کہ سائلہ کےعلاوہ اور کوئی  شخص ،مذکورہ چیزیں سکھانے والا نہ ہو اور جو تعلیم دی جارہی ہو اس کا تعلق  بھی ضروریاتِ دین میں سے ہو  ،کہ اگر  سائلہ مذکورہ چیزیں نہ سکھائیں گی تو عوام دین  و دنیا کی  بنیادی  تعلیمات سے محروم رہ جائیں گے ۔ اگر اس طرح کی کوئی صورتِ حال پیدا ہوجائے تو ضرورت کے درجے میں ضرورت کے بقدر  سائلہ کے لیے مذکورہ  کاموں کی گنجائش ہوگی ۔ اور ظاہر ہے کہ موجودہ  زمانے  میں ایسی کوئی  صورتِ حال نہیں ہے، اس لیے سائلہ کا بیان کردی مقاصد کے پیشِ نظر انسٹا گرام استعمال کرنا درست نہیں ہے۔

(3)جن علماء نے یوٹیوب کی کمائی کو جائز کہا ہے ان کے پیشِ نظر وہ صورتیں ہیں جن میں شرعی محظورات کا ارتکاب لازم نہ آتا ہو  اور ناجائز کہنے والے علماء نے ان امور کو مدِنظر رکھ کر ناجائز کہا ہے کہ جو درحقیقت ناجائز ہیں  اور یوٹیوب کی پالیسی کی وجہ سے ان محظورات سے بچنا ممکن ہی نہیں ہے ، اس لیے انہوں نے ناجائز ہونے کے پہلو کو ترجیح دی۔

احکام القرآن للجصاص میں ہے:

"وقوله تعالى: {ولا يضربن بأرجلهن ليعلم ما يخفين من زينتهن} روى أبو الأحوص عن عبد الله قال: "هو الخلخال"، وكذلك قال مجاهد: "إنما نهيت أن تضرب برجليها ليسمع صوت الخلخال" وذلك قوله: {ليعلم ما يخفين من زينتهن} . قال أبو بكر: قد عقل من معنى اللفظ النهي عن إبداء الزينة وإظهارها لورود النص في النهي عن إسماع صوتها; إذ كان إظهار الزينة أولى بالنهي مما يعلم به الزينة، فإذا لم يجز بأخفى الوجهين لم يجز بأظهرهما; وهذا يدل على صحة القول بالقياس على المعاني التي قد علق الأحكام بها، وقد تكون تلك المعاني تارة جلية بدلالة فحوى الخطاب عليها وتارة خفية يحتاج إلى الاستدلال عليها بأصول أخر سواها. وفيه دلالة على أن المرأة منهية عن رفع صوتها بالكلام بحيث يسمع ذلك الأجانب; إذ كان صوتها أقرب إلى الفتنة من صوت خلخالها; ولذلك كره أصحابنا أذان النساء; لأنه يحتاج فيه إلى رفع الصوت والمرأة منهية عن ذلك."

(‌‌ سورة النور،412/3،ط: دار الكتب العلمية)

فتاوی شامی میں ہے:

"‌وللحرة) ‌ولو ‌خنثى (جميع بدنها) حتى شعرها النازل في الأصح (خلا الوجه والكفين) فظهر الكف عورة على المذهب (والقدمين)على المعتمد، وصوتها على الراجح.

قوله وصوتها) معطوف على المستثنى يعني أنه ليس بعورة ح (قوله على الراجح) عبارة البحر عن الحلية أنه الأشبه. وفي النهر وهو الذي ينبغي اعتماده ...ذكر الإمام أبو العباس القرطبي في كتابه في السماع: ولا يظن من لا فطنة عنده أنا إذا قلنا صوت المرأة عورة أنا نريد بذلك كلامها، لأن ذلك ليس بصحيح، فإذا نجيز الكلام مع النساء للأجانب ومحاورتهن عند الحاجة إلى ذلك، ولا نجيز لهن رفع أصواتهن ولا تمطيطها ولا تليينها وتقطيعها لما في ذلك من استمالة الرجال إليهن وتحريك الشهوات منهم، ومن هذا لم يجز أن تؤذن المرأة."

(كتاب الصلاة، ‌‌باب شروط الصلاة، مطلب في ستر العورة،405،406/1، ط: سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144412101353

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں