میرے گھر والوں نے میرے پیدا ہونے پر پوسٹ لائف انشورنس میں کھاتہ کھولا تھا جس کے تحت ہر ماہ 870 رقم جمع کرواتے تھے۔ یہ رقم 20 سال بعد ملا کر انہیں 5 لاکھ دی جائے گی، جب کہ کل رقم 2 لاکھ بنتی ہے، ان کا دعویٰ ہے کہ یہ اضافی رقم کاروبار میں منافع سے حاصل ہوئی ہے کیا یہ جائز ہے ؟ نیز یہ کہ کالج کی فیس کے لیے اس رقم کی اشد ضرورت ہے تو کیا اس نیت سے یہ رقم استعمال کر سکتے ہیں کہ کچھ عرصے بعد یہ اضافی رقم صدقہ کر دی جائے گی ثواب کی نیت کے بغیر ؟
واضح رہے کہ انشورنس شریعت میں حرام اور ناجائز ہے اس لیے کہ انشورنس میں سود یا جُوا ہے ، اور سود اور جُوا دونوں حرام ہیں ۔
صورتِ مسئولہ میں سائل کے لئے انشورنس اور منافع سے حاصل ہونے والی رقم کا استعمال حرام ہے ، لہذا سائل کے گھر والوں نے مختلف اقساط میں جو اصل پیسہ جمع کروا یا تھا صرف وہ رقم لینا اور اس کا استعمال کرنا جائز ہو گا ، انشورنس اور منافع سے حا صل ہونے والی رقم کوبلانیت ثواب غربا ومساکین کودینا ضروری ہے ،کالج کی فیس بھر نے کے بھی اس کا استعما ل جائز نہیں ہے ۔
قرآنِ کریم میں ہے:
﴿ يَآ أَيُّهَا الَّذِينَ اٰمَنُوآ اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُون﴾[المائدة: 90]
صحیح مسلم میں ہے:
"عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: «لَعَنَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اٰكِلَ الرِّبَا، وَمُؤْكِلَهُ، وَكَاتِبَهُ، وَشَاهِدَيْهِ»، وَقَالَ: «هُمْ سَوَاءٌ»".
(3/1219، کتاب المساقات،دار احیاء التراث ، بیروت)
مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے:
"عن ابن سیرین قال: کل شيء فیه قمار فهو من المیسر".
(4/483، کتاب البیوع والأقضیة، ط: مکتبة رشد، ریاض)
فتاوی شامی میں ہے:
"وَسُمِّيَ الْقِمَارُ قِمَارًا؛ لِأَنَّ كُلَّ وَاحِدٍ مِنْ الْمُقَامِرَيْنِ مِمَّنْ يَجُوزُ أَنْ يَذْهَبَ مَالُهُ إلَى صَاحِبِهِ، وَيَجُوزُ أَنْ يَسْتَفِيدَ مَالَ صَاحِبِهِ وَهُوَ حَرَامٌ بِالنَّصِّ".
(6 / 403، کتاب الحظر والاباحۃ، ط: سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144311101329
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن