انسان کے اعضاء و اجزاء کا کیا حکم ہے،جیسے خون،گردے وغیرہ،کیا ان کا بیچنا جائز ہے یا نہیں ؟کیوں کہ اللہ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے ، اگر اس کو جائز مانیں تو انسان مبتذل ہو جائے گااور اگر ناجائز مانیں تو بہت سے لوگوں کی حاجت رفع نہیں ہو گی ،اس لیے کہ بہت سی زندگیاں اس سے بچتی ہیں ؟
کسی انسانی عضو کا (خواہ زندہ کا ہو یا مردہ کا) دوسرے انسان کے جسم میں استعمال (معاوضہ کے ساتھ ہو یا بغیرمعاوضہ کے) مندرجہ ذیل وجوہات کی بنیاد پر جائز نہیں ہے:
(1) اس مقصد کے لیے انسانی جسم کی چیر پھاڑ کی جاتی ہے جو کہ مثلہ ہے، اور مثلہ شریعت میں جائز نہیں ہے۔
مسند احمد میں ہے:
"عن ابن عباس ،قال: كان رسول ال له-صلي الله عليه وسلم إذا بعث جيوشه قال: "اخرجوا بسم الله، تقاتلون في سبيل الله، من كفر بالله، لا تغدروا، ولا تغلوا، ولا تمثلوا، ولا تقتلوا الولدان، ولا أصحاب الصوامع"
(ج:3،ص:218،ط: دار الحدیث ،بیروت)
(2) کسی زندہ حیوان (جس میں انسان بھی شامل ہے) کے جسم سے اگر کوئی جز الگ کردیا جائے، وہ مردار اور ناپاک کے حکم میں ہوجاتا ہے ۔
سنن ابو داؤد میں ہے:
"عن أبي واقد، قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم: "ما قطع من البهيمة وهي حية فهي ميتة"
(کتاب الصید ،باب فی صید قطع منه قطعة،ج:3،ص:111،ط:مکتبة العصریه،بیروت)
لہذا عضو کی پیوند کاری کی وجہ سے پوری عمر ایک ناپاک چیز سے جسمِ انسانی ملوث رہے گا۔
(3) کسی چیز کو ہبہ کرنے یا عطیہ کے طور پر کسی کو دینے کے لیے یہ شرط ہے وہ شے (چیز) مال ہو، اور دینے والے کی ملک ہو۔
فتاوی عا لمگیری میں ہے:
"وأما ما يرجع إلى الواهب فهو أن يكون الواهب من أهل الهبة، وكونه من أهلها أن يكون حرا عاقلا بالغا مالكا للموهوب حتى لو كان عبدا أو مكاتبا أو مدبرا أو أم ولد أو من في رقبته شيء من الرق أو كان صغيرا أو مجنونا أو لا يكون مالكا للموهوب لا يصح، هكذا في النهاية. وأما ما يرجع إلى الموهوب فأنواع منها أن يكون موجودا وقت الهبة فلا يجوز هبة ما ليس بموجود وقت العقد ۔۔۔. ومنها أن يكون مالا متقوما فلا تجوز هبة ما ليس بمال أصلا كالحر والميتة والدم وصيد الحرم والخنزير وغير ذلك ولا هبة ما ليس بمال مطلق كأم الولد والمدبر المطلق والمكاتب ولا هبة ما ليس بمال متقوم كالخمر، كذا في البدائع"
( کتاب الھبة ،الباب الاول فی تفسیر الھبة وتفسیریھا وشرائطھاورکنھا،ج:3،ص:374،ط:دار الفکر بیروت)
انسان کو اپنے اعضاء میں حقِ منفعت تو حاصل ہے، مگر حقِ ملکیت حاصل نہیں ہے، جن اموال و منافع پر انسان کو حقِ مالکانہ حاصل نہ ہو انسان ان اموال یا منا فع کی مالیت کسی دوسرے انسان کو منتقل نہیں کرسکتا۔
(4) انسانی اعضاء و جوارح انسان کے پاس امانت ہیں اور انسان ان کا نگران اور محافظ ہے، اور امین کو ایسے تصرفات کا اختیار نہیں ہوتا جس کی اجازت امانت رکھنے والے نے نہ دی ہو۔
فتاوی عالمگیری میں ہے:
"وأما حكمها فوجوب الحفظ على المودع وصيرورة المال أمانة في يده ووجوب أدائه عند طلب مالكه، كذا في الشمني."
" الوديعة لا تودع ولا تعار ولا تؤاجر ولا ترهن، وإن فعل شيئا منها ضمن، كذا في البحر الرائق"
(کتاب الودیعة،الباب الاول فی تفسیرالایداع والودیعة ،ج:4،ص:338،ط: دارالفکر بیروت)
(5) انسان قابلِ احترام اور مکرم ہے، اس کے اعضاء میں سے کسی عضو کو اس کے بدن سے الگ کرکے دوسرے انسان کو دینے میں انسانی تکریم کی خلاف ورزی لازم آتی ہے، یہی وجہ ہے کہ فقہاء نے علاج ومعالجہ اور شدید مجبوری کے موقع پر بھی انسانی اعضاء کے استعمال کو ممنوع قرار دیا ہے۔
چناچہ شرح سیر الکبیر میں ہے:
"والآدمي محترم بعد موته على ما كان عليه في حياته. فكما يحرم التداوي بشيء من الآدمي الحي إكراما له فكذلك لا يجوز التداوي بعظم الميت. قال صلى الله عليه وسلم: "كسر عظم الميت ككسر عظم الحي"
(باب دواء الجراحة،ج:1،ص:128)
نیز جس طرح کسی زندہ آدمی کے کسی عضو کو لے کر علاج کرنا درست نہیں ہے، اسی طرح کسی مردہ انسان کے عضو سے بھی علاج کرنا جائز نہیں ہے۔
فتاوی عالمگیری میں ہے:
"الانتفاع بأجزاء الآدمي لم يجز قيل للنجاسة وقيل للكرامة هو الصحيح كذا في جواهر الأخلاطي"
"وإذا كان برجل جراحة يكره المعالجة بعظم الخنزير والإنسان لأنه يحرم الانتفاع به كذا في الكبرى"
( کتاب الکراھیۃ ،الباب الثامن فی التداوی والمعالجات ،ج:5،ص:354،ط:دار الفکر بیروت)
یعنی آدمی کے تمام اعضاء سے فائدہ اٹھانے کی حرمت اس کی تکریم و احترم کے پیش ِ نظر ہے، تاکہ جس ہستی کو اللہ تعالی نے مکرم ومحترم بنایا ہے لوگ اس کے اعضاء و جوارح کو استعمال کرنے کی جسارت نہ کریں۔
(6) اگر انسانی اعضاء کی پیوندکاری کو جائز قرار دیا جائے تو یہ پوری انسانیت کے لیے ایک بڑا خطرہ اور تباہی کا ذریعہ بنےگا،کیوں کہ موجودہ زمانہ کے حالات و ماحول اورمعاشرہ میں پھیلی ہوئی بددیانتی کو دیکھتے ہوئے کوئی بعیدنہیں کہ لوگ اعضاء کی منتقلی کے جواز کے فتووں کابے جا استعمال کرتے ہوئے اسے باقاعدہ ایک کاروبار کی شکل دے دیں اوران ہی اعضاءکواپنا ذریعۂ معاش بنالیں، اس کا نتیجہ یہ ہوگاکہ:
1..بازار میں دیگراشیاء کی طرح انسانی اعضاء کی بھی علانیہ، ورنہ خفیہ خرید و فروخت شروع ہوجائےگی، جو بلاشبہ انسانی شرافت کے خلاف اور ناجائز ہے۔
2..غربت زدہ لوگ اپنا اور بچوں کاپیٹ پالنے کے لیے اور اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے اپنے اعضاء فروخت کرناشروع کردیں گے۔
3.. مُردوں کی بے حرمتی اوراُن کے ساتھ ظالمانہ رویّہ شروع ہوجائے گا، بالخصوص لاوارث مُردے اپنے بہت سے اعضاء سے محروم ہوکر دنیا سے جایا کریں گے، اور یہ بھی بعید نہیں کہ مال و دلت کے لالچی اور پُجاری مدفون لاشوں کو اکھاڑکر اپنی ہوس پوری کرنے لگیں، جیسا کہ مختلف ذرائع سے سننے میں آتا رہتا ہے۔
4.. خدا نخواستہ یہ معاملہ بڑھتا رہا تو صرف اپنی موت مرنے والوں تک ہی یہ سلسلہ محدود نہیں رہے گا، بلکہ اس کام کے لیے بہت سے معصوم انسانوں کے قتل کا بازار گرم ہوجانا اور اس مقصد کے لیے اغوا کا شروع ہونا ممکن ہے، جو پورے انسانی معاشرے کی تباہی کا اعلان ہے۔
مذکورہ بالا دلائل کی وضاحت کرتے ہوئے مفتیٔ اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب قدس اللہ سرہ تحریر فرماتے ہیں:
” انسان کے اعضاء و اجزاء انسان کی اپنی ملکیت نہیں ہیں جن میں وہ مالکانہ تصرفات کرسکے، اسی لیے ایک انسان اپنی جان یا اپنے اعضاء و جوارح کو نہ بیچ سکتا ہے نہ کسی کو ہدیہ اور ہبہ کے طور پر دے سکتا ہے، اور نہ ان چیزوں کو اپنے اختیار سے ہلاک و ضائع کرسکتا ہے۔ شریعتِ اسلامیہ کے اصول میں تو خود کشی کرنا اور اپنی جان یا اعضاء رضاکارانہ طور پر یا بقیمت کسی کو دے دینا قطعی طور حرام ہی ہے جس پر قرآن و سنت کی نصوصِ صریحہ موجود ہیں، تقریباً دنیا کے ہر مذہب و ملت اور عام حکومتوں کے قوانین میں اس کی گنجائش نہیں، اس لیے کسی زندہ انسان کا کوئی عضو کاٹ کر دوسرے انسان میں لگادینا اس کی رضامندی سے بھی جائز نہیں ۔۔۔ شریعتِ اسلام نے صرف زندہ انسان کے کارآمد اعضاء ہی کا نہیں، بلکہ قطع شدہ بے کار اعضاء و اجزاء کا استعمال بھی حرام قرار دیا ہے، اور مردہ انسان کے کسی عضو کی قطع و برید کو بھی ناجائز کہا ہے، اور اس معاملہ میں کسی کی اجازت اور رضامندی سے بھی اس کے اعضاء و اجزاء کے استعمال کی اجازت نہیں دی، اور اس میں مسلم و کافر سب کا حکم یک ساں ہے؛ کیوں کہ یہ انسانیت کا حق ہے جو سب میں برابر ہے۔ تکریمِِ انسانی کو شریعتِ اسلام نے وہ مقام عطا کیا ہے کہ کسی وقت کسی حال کسی کو انسان کے اعضاء و اجزاء حاصل کرنے کی طمع دامن گیر نہ ہو، اور اس طرح یہ مخدومِ کائنات اور اس کے اعضاء عام استعمال کی چیزوں سے بالاتر ہیں جن کو کاٹ چھانٹ کر یا کوٹ پیس کر غذاؤں اور دواؤں اور دوسرے مفادات میں استعمال کیا جاتا ہے، اس پر ائمہ اربعہ اور پوری امت کے فقہاء متفق ہیں، اور نہ صرف شریعتِ اسلام بلکہ شرائعِ سابقہ اور تقریباً ہر مذہب و ملت میں یہی قانون ہے"۔
(انسانی اعضاء کی پیوندکاری، ص: ۳۶، مصدقہ مجلسِ تحقیقِ مسائلِ حاضرہ)
خون جب جسم سے نکل جائے تو وہ بھی نجس اور ناپاک ہے، اس کا اصل تقاضا یہ ہے کہ اس کی بھی کسی دوسرے کے جسم میں منتقلی حرام ہو، لیکن اضطراری حالات اور ضرورتِ شدیدہ کے موقعے پر فقہاء نے عورت کے دودھ پر قیاس کرکے اس کے استعمال کی اجازت دی ہے، البتہ اس کی نجاست کے پیشِ نظر اس کے استعمال کا حکم وہی ہے جو دوسری حرام اور نجس چیزوں کے استعمال کا ہے یعنی:
(1)جب مریض اضطراری حالت میں ہو اور ماہر ڈاکٹر کی نظر میں خون دیے بغیر اس کی جان بچانے کا کوئی راستہ نہ ہوتو خون دینا جائز ہے۔
(2)جب ماہر ڈاکٹر کی نظر میں خون دینے کی حاجت ہو، یعنی مریض کی ہلاکت کا خطرہ نہ ہو، لیکن اس کی رائے میں خون دیے بغیر صحت کا امکان نہ ہو ، تب بھی خون دینا جائز ہے۔
(3) جب خون نہ دینے کی صورت میں ماہر ڈاکٹر کے نزدیک مرض کی طوالت کا اندیشہ ہو، ا س صورت میں بھی خون دینے کی گنجائش ہے، مگر اجتناب بہتر ہے۔ ان تمام صورتوں میں خون کاعطیہ دینا توجائز ہے، مگر خون کامعاوضہ لینادرست نہیں ہے۔
(4) جب خون دینے سے محض منفعت و زینت اور قوت بڑھانا مقصود ہو، ایسی صورت میں خون دینا جائز نہیں ہے۔
فتاوی شامی میں ہے:
"(ولم يبح الإرضاع بعد موته) لأنه جزء آدمي والانتفاع به لغير ضرورة حرام على الصحيح شرح الوهبانية. وفي البحر: لا يجوز التداوي بالمحرم في ظاهر المذهب، أصله بول المأكول كما مر۔( قوله وفي البحر) عبارته: وعلى هذا أي الفرع المذكور لا يجوز الانتفاع به للتداوي. قال في الفتح: وأهل الطب يثبتون للبن البنت أي الذي نزل بسبب بنت مرضعة نفعا لوجع العين. واختلف المشايخ فيه، قيل لا يجوز، وقيل يجوز إذا علم أنه يزول به الرمد."
'ولا يخفى أن حقيقة العلم متعذرة، فالمراد إذا غلب على الظن وإلا فهو معنى المنع اهـ. ولا يخفى أن التداوي بالمحرم لا يجوز في ظاهر المذهب، أصله بول ما يؤكل لحمه فإنه لا يشرب أصلا. اهـ. (قوله بالمحرم) أي المحرم استعماله طاهرا كان أو نجسا ح (قوله كما مر) أي قبيل فصل البئر حيث قال: فرع اختلف في التداوي بالمحرم. وظاهر المذهب المنع كما في إرضاع البحر، لكن نقل المصنف ثمة وهنا عن الحاوي: وقيل يرخص إذا علم فيه الشفاء ولم يعلم دواء آخر كما خص الخمر للعطشان وعليه الفتوى۔"
(کتاب النکاح ،باب الرضاع ،ج:3،ص:211،ط:سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144511101875
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن