بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

انشورنس کمپنی میں ملازمت کرنے کا حکم


سوال

 میں ایک ایف یو انشورنس کمپنی میں ملازمت کرتا ہوں کیا میں کوئی دوسری جاب نہ     ملنے تک یہی ملازمت کر سکتا ہوں اور میں نے یو بی ایل بینک میں کیشیر کی جاب کے لیے اپلائی کیا ہوا ہے ۔کیا میرا بینک میں ملازمت کرنا جائز ہوگا اور اسلامی بنک میں اس طرح کی جاب کرنا کیسا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ مروجہ بینکوں اور  انشورنس کی کسی بھی کمپنی میں ملازمت کرنا جائز نہیں ہے ،کیوں کہ اس میں سود اور جوئے کے کام میں معاونت ہوتی ہے اور گناہ کے کام میں معاونت کرنا ناجائز وحرام ہے۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر سائل کا کوئی اور ذریعہ معاش نہیں ہے تو   اسے چاہیے کہ ایک بے روزگار  کی حیثیت سے  فوراً متبادل جائز ملازمت کے لیے سنجیدہ کوشش کرے ، جیسے ہی بقدرِ کفایت جائز ملازمت  میسر آجائے  فوراً  انشورنس کمپنی کی ملازمت چھوڑ دے،  اور جب تک کہیں اور نوکری نہیں ملتی اور اس کے لیے  مذکورہ انشورنس کمپنی کی نوکری چھوڑنا مشکل ہو اور اس کا کوئی اور حلال ذریعہ آمدن بھی نہ ہو تو ناجائز سمجھتے ہوئے  مذکورہ کمپنی میں وقتی طور پر نوکری جاری رکھے،مگر ساتھ ہی توبہ و استغفار کرتا رہے اور استطاعت ہونے پر اتنے عرصہ میں کمپنی سے حاصل شدہ مراعات کے بقدر صدقہ بھی کرے، امید ہے اللہ تعالیٰ بخشش فرما دیں گے۔

ملحوظ رہے کہ یو بی ایل بینک اور  مروجہ اسلامی بینکوں میں ملازمت کرنا بھی جائز نہیں ہے، اس لیے سائل بینک کے علاوہ حلال ذریعہ معاش تلاش کرے۔

قرآن کریم میں اللہ جل شانہ کا ارشاد  ہے:

"{يَا أَيُّهَا الَّذِينَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ  فَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ}[البقرة:278، 279]"

ترجمہ:اے ایمان والو!  اللہ سے ڈرو ، اور جو کچھ سود کا بقایا ہے اس کو چھوڑدو،  اگر  تم ایمان والے ہو، پھر اگر تم (اس پر عمل  ) نہ کروگے تو اشتہار سن لو جنگ کا  اللہ کی طرف سے اور اس کے رسول  کی طرف  سے۔"

(سورۃ البقرۃ ، آیت:278، 279، از بیان القرآن)

دوسری جگہ ارشاد ہے:

"{يَمْحَقُ اللَّهُ الرِّبَا وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ}"[البقرة:276]

ترجمہ: اللہ سود کو مٹاتے ہیں ،  اور صدقات کو بڑھاتے ہیں۔

(سورۃ البقرۃ ، آیت:276، از بیان القرآن)

اسی طرح ارشاد باری تعالیٰ ہے:

"{وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ}"[المائدة:2]

ترجمہ: اور گناہ  اور زیادتی میں  ایک  دوسرے  کی اعانت مت کرو ، اور اللہ تعالیٰ سے ڈرا کرو ، بلاشبہ  اللہ تعالیٰ  سخت سزا دینے والے ہیں۔"

( از بیان القرآن، سورۃ المائدۃ ، آیت:2)

تفسیر ابن کثیر میں ہے:

"{ولا تعاونوا على الاثم و العدوان}، یأمر تعالی عبادہ المؤمنین بالمعاونة علی فعل الخیرات وهوالبر و ترك المنکرات و هو التقوی، و ینهاهم عن التناصر علی الباطل و التعاون علی المآثم والمحارم".

(تفسیر ابن کثیر،سورة المائدة:2 ج:2، ص:10، ط:دارالسلام)

حدیث شریف  میں ہے:

"عن جابر رضي الله عنه قال: لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم ‌آ كل ‌الربا وموكله وكاتبه وشاهديه، وقال: هم سواء."

(مشكاة المصابيح ،باب الربوا، ص: 243، ط: قدیمی)

ترجمہ:"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سُود کھانے والے ، کھلانے والے ، (سُود کا حساب) لکھنے والے  اورسود پر گواہ بننے والے پر لعنت کی ہے۔"

ایک اور حدیثِ مبارک  میں ہے:

"وعن ابن مسعود رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن الربا وإن كثر فإن عاقبته تصير إلى قل. رواهما ابن ماجه والبيهقي في شعب الإيمان۔"

(مشکاة المصابیح، باب الربوا، ص:246، ط:قدیمی)

ترجمہ: حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا سود سے حاصل ہونے والا مال خواہ کتنا ہی زیادہ ہو مگر اس کا انجام کمی یعنی بے برکتی ہے۔(از مظاہر حق)

المبسوط للسرخسی میں ہے:

"ونهى رسول الله - صلى الله عليه وسلم - عن قرض جر منفعة وسماه ربا."

(كتاب الصرف، باب القرض و الصرف فيه، ج 14، ص 35، ط :دار المعرفة بيروت)

احکام القرآن للجصاص   میں ہے:

"ولا خلاف بين أهل العلم ‌في ‌تحريم ‌القمار وأن المخاطرة من القمار; قال ابن عباس: إن المخاطرة قمار وإن أهل الجاهلية كانوا يخاطرون على المال، والزوجة، وقد كان ذلك مباحا إلى أن ورد تحريمه."

(‌‌باب تحريم الميسر، ج:1، ص:398، ط:دار الکتب العلمية)

الموسوعة الفقهية الكويتية میں ہے:

"الإجارة على المنافع المحرمة كالزنى والنوح والغناء والملاهي محرمة وعقدها باطل لا يستحق به أجرة.ولا يجوز استئجار ‌كاتب ‌ليكتب له غناء ونوحا؛ لأنه انتفاع بمحرم."

(‌‌الإجارة ، الإجارة على المعاصي والطاعات، ج:1، ص:290، ط:اميرحمزه كتب خانه)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144508102134

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں