بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

انسانی خونی کے عطیہ کے جواز اور اعضاء کے عطیہ کے عدمِ جواز کی وجہ


سوال

انسان کے لیے  خون کا عطیہ کر نا جائز ہے تو پھر اعضاء کا عطیہ  کرنا حرام کیوں ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ ميں فقہاء نے خون كو عورت کے دودھ پر قیاس کرکے کسی انسان کی جان بچانے کے لیے عطيہ کرنے کو جائز کہاہے، جس طرح بچےکی جان بچانے کےلیے اس کو  دودھ پلانا جائز ہے، اسی طرح انسان کی جان بچانے کے لیے  ضرورت کے وقت دودھ پر قیاس کرتے ہوئے خون دینا بھی جائز ہے، اور خون دینے میں قطع برید کی ضرورت نہیں، جیسا کہ دودھ پلانے میں قطع وبرید کی ضرورت نہیں، اور جس طرح دودھ پلانے سے دودھ ختم نہیں ہوتا، بدستور باقی رہتاہے اور پیدا ہوتارہتاہے، اسی طرح خون دینے سے خون ختم نہیں ہوتا، بدستور پیدا ہوتارہتاہے۔

 اور اعضاء کو خون پر قیاس کرنا صحیح نہیں، اس لیے خون دینا جائز ہے، اعضاء کا عطیہ کرناجائز نہیں، اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ اس میں اعضاء انسانی میں کانٹ چھانٹ لازم آتاہے، جو کہ مثلہ کے حکم میں ہے اور اعضاء دینے سے اعضاء ختم ہوجاتے ہیں اور بعد میں پیدا نہیں ہوتے اور موت تک تلافی نہیں ہوتی، اور مزید یہ  کہ اس کا کوئی مقیس علیہ  بھی نہیں کہ جس پر قیاس کرکےاعضاء کے عطیہ کے جواز کا فتوی دیاجائے، جب کہ خون دینے کے لیےاس کا مقیس علیہ موجود ہے۔

 مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

"جہاں تک پہلی وجہ یعنی اس کے جز انسان ہونے کا تعلق ہے، اس میں غور کرنے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ خون اگرچہ جزء انسانی ہے، مگر اس کو دوسرے انسان کے بدن میں منتقل کرنے کے لیےاعضاء انسانی میں کانٹ چھانٹ کی ضرورت پیش نہیں آتی، بلکہ انجکشن کے ذریعہ خون نکالا  اور دوسرے بدن میں ڈالا جاتاہے، اس لیے اس حیثیت سے اس کی مثال انسانی دودھ کی سی ہوگئی جو بدنِ انسانی سے بغیر کسی کانٹ چھانٹ کے نکلتاہے اور دوسرے انسان کے بدن کا جز بنتاہے۔۔۔۔۔۔اس لیے جزءِ انسانی ہونے کی حیثیت سے اگر خون کو دودھ پر قیاس کیاجائے تو کچھ بعید نہیں، لہٰذا یہ کہا جاسکتاہے کہ جس طرح شریعتِ اسلام نے عورت کے دودھ کو جزءِ انسانی ہونے کے باوجود ضرورت کی بناء پر بچوں کے  لیے جائز کردیاہے، اسی طرح ضروت کی بناء پر خون دینا بھی جائز ہے"۔

(انسانی اعضاء کی پیوندکاری، ص: 28، مصدقہ مجلسِ تحقیقِ مسائلِ حاضرہ)

ارشادِ باری تعالی ہے:

"وَ لَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِیْۤ اٰدَمَ وَ حَمَلْنٰهُمْ فِی الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ وَ رَزَقْنٰهُمْ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ وَ فَضَّلْنٰهُمْ عَلٰى كَثِیْرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِیْلًا۠"(الاسراء:70)

ترجمہ:اور ہم نے بنی آدم کو عزت دی اور ہم نےان کو خشکی اور تری میں سوار کیا اور نفیس نفیس چیزیں ان کو عطاء فرمائیں اور ہم نے ان کو اپنی مخلوقات پر فوقیت دی"۔

(بیان القرآن، ج:2، ص:387، ط:رحمانیہ)

حدیث شریف میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مثلہ سے منع فرماتے تھے:

"فإن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يحثنا على الصدقة، وينهانا عن المثلة".

(المصنف لعبد الرزاق،ج:8، ص:260، ط: دار التاصیل)

شرح سیر الکبیر میں ہے:

"والآدمي محترم بعد موته على ما كان عليه في حياته. فكما يحرم التداوي بشيء من الآدمي الحي إكراما له فكذلك لا يجوز التداوي بعظم الميت. قال صلى الله عليه وسلم: «‌كسر ‌عظم ‌الميت ‌ككسر ‌عظم ‌الحي»".

(شرح السیر الکبیر، ج:1، ص:89)

مزید دیکھیے:

انسانی جگر کی پیوندکاری کو خون پر قیاس کرنا

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144404100384

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں