بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 ربیع الاول 1446ھ 19 ستمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

انسانی جسم میں کتنی بار روح ڈالی جاتی ہے؟


سوال

انسانی جسم میں کتنی بار روح ڈالی جاتی ہے؟  ایک سوال کے جواب میں 6مرتبہ کا جواب ہے۔ برائے مہربانی وضاحت کر دیں!

جواب

انسانی جسم میں تین مرتبہ روح ڈالی جاتی ہے، پہلی مرتبہ روح تب پھونکی جاتی ہے، جب وہ شکمِ مادر میں 120 دن (4ماہ) کا جنین ہوتا ہے، پھر وہ دنیا میں آنے کے بعد انتقال کر جاتا ہے اور اس کی روح قبض کرلی جاتی ہے، اس کے بعد قبر میں اس کے بدن میں روح لوٹائی جاتی ہےتاکہ فرشتوں کو سوالوں کے جواب دے، یہ عالمِ برزخ میں ہوتا ہے؛ مگر اس بار روح کا ادراک پہلی مرتبہ بدن میں روح ڈالے جانے جیسا نہیں ہوتا، بلکہ روح کا بدن سے ایک خاص قسم کا تعلق قائم ہوتا ہے، جس کی وجہ سے آدمی فرشتوں کے سوالوں کو سمجھتا ہے اور جو صحیح یا غلط جواب دینا اس کا مقدر ہوتا ہے، جواب دیتا ہے، اسی طرح گناہ گار ہو تو عذابِ قبر اور اس کی تکلیف محسوس کرتا ہے،نیک ہو تو جنتیوں والے احوال اور نعمت کے مزے پاتا ہے؛ مردہ اسی حال میں رہتا ہے یہاں تک کہ قیامت قائم ہو جاتی ہے، تو اس کے بدن میں سب سے پہلی دفعہ کی مانند دوبارہ روح ڈالی جاتی ہے، اور وہ حساب کتاب اور اگلے مراحل کے لیے اٹھ کھڑا ہوتا ہے؛ اس طرح انسانی بدن میں کل تین مرتبہ روح ڈالی جاتی ہے، اور درمیان والی دوسری مرتبہ میں روح کا ادراک یعنی قوت اور احساس پہلی اور آخری دفعہ کے مقابلے میں کم ہونے کی وجہ سے یہ کہنا بھی درست ہے کہ دو مرتبہ روح ڈالی جاتی ہے۔ تاہم بدن کے ساتھ تعلق نسبتاً کمزور ہونے کی بنا پر عالمِ برزخ والے اعادۂ روح کا انکار نہیں کیا جا سکتا، بلکہ یہ برحق ہے اور اس کا انکار سخت گمراہی ہے۔

سائل نے جو 6 مرتبہ روح ڈالنے کا ذکر کیا، اس کا ہمیں کوئی ثبوت نہیں ملا۔

صحیح البخاری میں ہے :

"قال عبد الله : حدثنا رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو الصادق المصدوق قال: إن ‌أحدكم ‌يجمع ‌خلقه ‌في ‌بطن ‌أمه ‌أربعين ‌يوما ثم يكون علقة مثل ذلك ثم يكون مضغة مثل ذلك ثم يبعث الله ملكا فيؤمر بأربع كلمات ويقال له: اكتب عمله ورزقه وأجله وشقي أو سعيد ثم ينفخ فيه الروح فإن الرجل منكم ليعمل حتى ما يكون بينه وبين الجنة إلا ذراع فيسبق عليه كتابه فيعمل بعمل أهل النار. ويعمل حتى ما يكون بينه وبين النار إلا ذراع فيسبق عليه الكتاب فيعمل بعمل أهل الجنة."

(‌‌كتاب بدء الخلق، ‌‌باب ذكر الملائكة، ج : 4، ص : 111، رقم الحدیث : 3208، ط : السلطانية بالمطبعة الكبرى الأميرية)

تفسير ماتریدی میں ہے :

"وقوله - عزوجل -: (‌قَالُوا ‌رَبَّنَا ‌أَمَتَّنَا ‌اثْنَتَيْنِ ‌وَأَحْيَيْتَنَا ‌اثْنَتَيْنِ فَاعْتَرَفْنَا بِذُنُوبِنَا فَهَلْ إِلَى خُرُوجٍ مِنْ سَبِيلٍ. قال بعض أهل التأويل: كانوا أمواتا في أصلاب آبائهم، فأحياهم اللَّه تعالى في الدنيا، ثم أماتهم الموتة التي لا بد منها، ثم أحياهم للبعث يوم القيامة،۔۔۔وقَالَ بَعْضُهُمْ: قوله: (رَبَّنَا أَمَتَّنَا اثْنَتَيْنِ وَأَحْيَيْتَنَا اثْنَتَيْنِ): إحدى الموتتين هي التي تنقضي بها آجالهم، ثم يحييهم في القبر، ثم يميتهم، ثم يحييهم للبعث يوم القيامة، فهما موتتان وحياتان، وإلى هذا يذهب ابن الراوندي، ويحتج بهذا على عذاب القبر، وهو أشبه وأقرب؛ لأنهم بكونهم في أصلاب آبائهم أمواتا لا يقال: (أَمَتَّنَا) وهم كانوا أمواتا."

(‌‌سورة حم المؤمن، ج : 9، ص : 10،ط : دار الكتب العلمية)

تفسیر طبری میں ہے :

"وأما وجه تأويل قول قتادة ذلك: أنهم كانوا أمواتا في أصلاب آبائهم. فإنه عنى بذلك أنهم كانوا نطفا لا أرواح فيها، فكانت بمعنى سائر الأشياء الموات التي لا أرواح فيها. وإحياؤه إياها تعالى ذكره، نفخه الأرواح فيها، وإماتته إياهم بعد ذلك، قبضه أرواحهم. وإحياؤه إياهم بعد ذلك، نفخ الأرواح في أجسامهم يوم ينفخ في الصور، ويبعث الخلق للموعود." وفیه ایضا : وأولى ما ذكرنا -من الأقوال التي بينا- بتأويل قول الله جل ذكره:"كيف تكفرون بالله وكنتم أمواتا فأحياكم" الآية، القول الذي ذكرناه عن ابن مسعود وعن ابن عباس: من أن معنى قوله:"وكنتم أمواتا" أموات الذكر، خمولا في أصلاب آبائكم نطفا، لا تعرفون ولا تذكرون: فأحياكم بإنشائكم بشرا سويا حتى ذكرتم وعرفتم وحييتم، ثم يميتكم بقبض أرواحكم وإعادتكم رفاتا لا تعرفون ولا تذكرون في البرزخ إلى يوم تبعثون، ثم يحييكم بعد ذلك بنفخ الأرواح فيكم لبعث الساعة وصيحة القيامة، ثم إلى الله ترجعون بعد ذلك، كما قال:"ثم إليه ترجعون"، لأن الله جل ثناؤه يحييهم في قبورهم قبل حشرهم، ثم يحشرهم لموقف الحساب."

(سورة‌‌ البقرة، الآیة : 28، ج : 1، ص : 422/24، ط : دار التربية والتراث)

مشکاة المصابیح میں ہے :

"عن البراء بن عازب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ويأتيه ملكان فيجلسانه فيقولان له من ربك فيقول ربي الله فيقولان له ما دينك فيقول ديني الإسلام فيقولان له ما هذا الرجل الذي بعث فيكم قال فيقول هو رسول الله صلى الله عليه وسلم فيقولان وما يدريك فيقول قرأت كتاب الله فآمنت به وصدقت۔۔۔ قال وإن الكافر فذكر موته قال ‌وتعاد ‌روحه ‌في ‌جسده ويأتيه ملكان فيجلسانه فيقولان له من ربك فيقول هاه هاه لا أدري فيقولان له ما دينك فيقول هاه هاه لا أدري فيقولان ما هذا الرجل الذي بعث فيكم فيقول هاه هاه لا أدري فينادي مناد من السماء أن كذب فأفرشوه من النار۔۔۔ . رواه أحمد وأبو داود."

(‌‌باب إثبات عذاب القبر، ‌‌الفصل الثاني، ج : 1، ص : 26، ط : مکتبة رحمانیة)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144504100261

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں