بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

انسانی حقوق کے مغربی ادارے میں کام کرنا


سوال

میرا سوال یہی ہے کہ مغربی انسانی حقوق والوں کے ادارے میں کام کرنا جائز ہے ان کاترجمان بن کر

 

جواب

واضح رہے کہ کسی بھی ادارہ   میں ملازمت کرنے  کے  جائز یا ناجائز ہونے کا مدار اس بات پر ہے کہ وہ ادارہ اپنے ملازم سے کیا کام لیتا ہے؟ اور اس ادارہ  کے اغراض و مقاصد کیا ہیں؟  لہذاصورت مسئولہ میں اگر مذکورہ  مغربی ادارہ میں ملازم سے  خلافِ شریعت کام نہیں لیا جاتا ہو اور اس ادارہ  کے پس پردہ مقاصد، اسلام کے خلاف نہ ہوں تو اس میں نوکری کرنا جائز ہے، لیکن اگر مذکورہ ادارہ  میں ملازم سے خلافِ شرع (ناجائز)  کام لیا جاتا ہو یا اس ادارہ کے مقاصد خلافِ شریعت ہوں تو اس ادارہ  میں ملازمت کرنا جائز نہیں ہوگا۔

 

بدائع الصنائع میں ہے:

"وعلى هذا يخرج الاستئجار على المعاصي أنه لا يصح لأنه استئجار على منفعة غير مقدورة الاستيفاء شرعا كاستئجار الإنسان للعب واللهو، وكاستئجار المغنية، والنائحة للغناء، والنوح .....وكذا لو استأجر رجلا ليقتل له رجلا أو ليسجنه أو ليضربه ظلما وكذا كل إجارة وقعت لمظلمة؛ لأنه استئجار لفعل المعصية فلا يكون المعقود عليه مقدور الاستيفاء شرعا فإن كان ذلك بحق بأن استأجر إنسانا لقطع عضو جاز."

(کتاب الاجارۃ , فصل فی انواع شرائط رکن الاجارۃ جلد 4 ص: 189 ط: دارالکتب العلمیة)

المحیط البرہانی میں ہے:

"لا تجوز الإجارة على شيء من اللهو والمزامير والطبل وغيره؛ لأنها معصية والإجارة على المعصية باطلة؛ ولأن الأجير مع المستأجر يشتركان في منفعة ذلك فتكون هذه الإجارة واقعة على عمل هو فيه شريك."

(کتاب الاجارات , الفصل الخامس عشر: فی بیان مایجوز من الاجارات و ما لایجوز جلد 7 ص: 482 ط: دارالکتب العلمیة)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144410101571

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں