بچپن میں کسی آدمی سے سنا تھا کہ صحابہ کرامؓ کو ایک انسانی ہاتھ ملا اور وہ حضور اقدسﷺ کی بارگاہ میں پیش کیا گیا اور اس ہاتھ کا جنازہ پڑھایا گیا۔ برائےمہربانی وضاحت کیجیے۔
ایسی کوئی روایت تلاش کے باوجود ہمیں کسی مستند کتاب میں نہیں مل سکی جس میں یہ ذکر ہو کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو انسانی ہاتھ ملا ہو اور اس کی نماز جنازہ ادا کی گئی ہو؛ لہذا یہ واقعہ درست نہیں، اور نبی کریم ﷺ کی جانب اس کی نسبت کرنا جائز نہیں ہے۔
یہ بھی یاد رہے کہ اگر زندہ انسان کا کوئی عضو مثلاً ہاتھ یا پاؤں کٹ کر الگ ہوجائے یا مردہ انسان کا صرف ہاتھ یا پاؤں ملے تو اس کا حکم یہ ہے کہ اس کو کسی پاک کپڑے میں لپیٹ کر دفن کردیا جائے گا، اس کی نماز جنازہ نہیں پڑھی جائے گی۔
غسل اور نمازِ جنازہ کا حکم میت کے لیے ہے، اور میت سے مراد پورا جسم ہے، نیز جسم کا اکثر حصہ یا آدھا دھڑ جب کہ اس کے ساتھ سر ہو، غسل اور جنازہ کے حکم میں پورے جسم کی طرح ہے۔
بدائع الصنائع (1 / 302):
"وعلى هذا يخرج ما إذا وجد طرف من أطراف الإنسان كيد أو رجل أنه لايغسل؛ لأن الشرع ورد بغسل الميت، والميت اسم لكله ولو وجد الأكثر منه غسل؛ لأن للأكثر حكم الكل، وإن وجد الأقل منه، أو النصف لم يغسل كذا ذكر القدوري في شرحه مختصر الكرخي؛ لأن هذا القدر ليس بميت حقيقة وحكمًا، ولأن الغسل للصلاة وما لم يزد على النصف لايصلى عليه، فلايغسل أيضًا".
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144205200871
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن