بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شعبان 1446ھ 08 فروری 2025 ء

دارالافتاء

 

انسانی بالوں کی خریدوفروخت کا حکم


سوال

 میرا سوال یہ ہے کہ آج کل پاکستان کے تقریباً ہر شہر میں کنگھی سے ٹوٹے انسانی بال خریدنے والے گلی گلی گھوم رہے ہیں،جو کہ 7 سے 10 ہزار روپے فی کلو خرید تے ہیں،معلوم نہیں کس کام میں لگاتے ہیں، سوال یہ ہے کہ انسانی بال بیچنا اور خریدنا جائز ہے؟ اگر نہیں تو گورنمنٹ آف پاکستان اِن کے خلاف ایکشن کیوں نہیں لے رہی؟

جواب

 واضح رہے کہ  انسانی بالوں کی خرید و فروخت شرعاً جائز نہیں ہے، بلکہ  بال انسانی جسم کا حصہ ہونے کی وجہ سے قابلِ احترام ہیں،  نیز اجنبی مرد کے لیے عورت کے ٹوٹے ہوئے بالوں کو دیکھنا بھی جائز نہیں ہے، اس لیے سر میں کنگھی کرتے ہوئے عورتوں کے جو بال گر جائیں انہیں کسی جگہ دفنا دینا  چاہیے، اگر دفنانا مشکل ہو تو کسی کپڑے وغیرہ میں ڈال کر ایسی جگہ ڈال دیے جائیں   جہاں کسی اجنبی کی نظر نہ پڑے۔بہرحال انسانی بال خواہ مرد کے ہوں یا عورت کے ہوں ان کی خریدوفروخت اور اسے استعمال میں لانا ناجائز ہے۔انسانی بال نہ بالوں کی جگہ لگائے جاسکتے ہیں اور نہ ہی انہیں کھانے میں استعمال کیا جاسکتا ہے۔

باقی  حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ  انسانی بالوں کی خرید و فروخت کی روک تھام کرے۔

البناية شرح الهداية میں ہے:

"ولا يجوز ‌بيع ‌شعر ‌الإنسان ولا الانتفاع به لأن الآدمي مكرم غير مبتذل، فلا يجوز أن يكون شيء من أجزائه مهانا مبتذلا."

(كتاب البيوع،166/8،ط:دار الكتب العلمية)

فتاوی شامی میں ہے :

"(كما بطل) (بيع صبي لا يعقل ومجنون) شيئًا و بول (و رجيع آدمي لم يغلب عليه التراب) فلو مغلوبا به جاز كسرقين وبعر، واكتفى في البحر بمجرد خلطه بتراب (وشعر الإنسان) لكرامة الآدمي ولو كافرا ذكره المصنف وغيره في بحث شعر الخنزير.

(قوله: وشعر الإنسان) ولا يجوز الانتفاع به لحديث «لعن الله الواصلة والمستوصلة» وإنما يرخص فيما يتخذ من الوبر فيزيد في قرون النساء وذوائبهن هداية.[فرع] لو أخذ شعر النبي صلى الله عليه وسلم ممن عنده وأعطاه هديةً عظيمةً لا على وجه البيع فلا بأس به، سائحاني عن الفتاوى الهندية... (قوله: ذكره المصنف) حيث قال: والآدمي مكرم شرعًا وإن كان كافرًا فإيراد العقد عليه وابتذاله به وإلحاقه بالجمادات إذلال له. اهـ أي وهو غير جائز وبعضه في حكمه وصرح في فتح القدير ببطلانه ط. قلت: وفيه أنه يجوز استرقاق الحربي وبيعه وشراؤه وإن أسلم بعد الاسترقاق، إلا أن يجاب بأن المراد تكريم صورته وخلقته، ولذا لم يجز كسر عظام ميت كافر وليس ذلك محل الاسترقاق والبيع والشراء، بل محله النفس الحيوانية فلذا لا يملك بيع لبن أمته في ظاهر الرواية كما سيأتي فليتأمل".

(باب البيع الفاسد، ج: 5، صفحہ:58، ط: ایچ، ایم، سعید) 

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"فإذا قلم أطفاره أو جز شعره ينبغي أن يدفن ذلك الظفر والشعر المجزوز فإن رمى به فلا بأس وإن ألقاه في الكنيف أو في المغتسل يكره ذلك ‌لأن ‌ذلك ‌يورث ‌داء كذا في فتاوى قاضي خان."

(كتاب الكراهية،358/5،ط:دار الفكر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144603103250

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں