بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

انسانی بالوں کی خرید و فروخت کا کاروبار کرنے والے کی دعوت قبول کرنے کا حکم


سوال

 اگر کوئی شخص بالوں کی خریدو فروخت کا کاروبار کرتا ہو تواس کی دعوت قبول کرنے کا کیا حکم ہے؟

جواب

انسانی بالوں کی خرید و فروخت شرعاً جائز نہیں ہے، اس لیے جو شخص انسانی بالوں کی خرید و فروخت کا کاروبار کرتا ہو اور اس کی غالب آمدنی اسی سے ہو تو اس کی دعوت قبول کرکے اس کا کھانا کھانا جائز نہیں ہے ، البتہ اگر یقینی طور سے معلوم ہوجائے کہ وہ شخص دعوت کے کھانے کا انتظام حلال آمدنی سے کر رہا ہے یا اس کی غالب آمدن حلال ہے تو پھر اس کی دعوت کو قبول کرنے کی گنجائش ہے۔اگر کسی او رجانور کے بالوں کا کاروبار کرتا ہو تو اس کی آمدنی حلال ہے،  البتہ خنزیر کے بالوں کی آمدنی حرام ہے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/ 58):

"(وشعر الإنسان)؛ لكرامة الآدمي ولو كافرًا ذكره المصنف وغيره في بحث شعر الخنزير.

(قوله: وشعر الإنسان) ولايجوز الانتفاع به؛ لحديث: «لعن الله الواصلة والمستوصلة». وإنما يرخص فيما يتخذ من الوبر فيزيد في قرون النساء وذوائبهن، هداية.
[فرع] لو أخذ شعر النبي صلى الله عليه وسلم ممن عنده وأعطاه هديةً عظيمةً لا على وجه البيع فلا بأس به، سائحاني عن الفتاوى الهندية.
مطلب: الآدمي مكرم شرعًا ولو كافرًا (قوله: ذكره المصنف) حيث قال: والآدمي مكرم شرعًا وإن كان كافرًا؛ فإيراد العقد عليه وابتذاله به وإلحاقه بالجمادات إذلال له. اهـ أي وهو غير جائز وبعضه في حكمه، وصرح في فتح القدير ببطلانه ط".

المحيط البرهاني  میں ہے:

"وفي «عيون المسائل» : رجل أهدى إلى إنسان أو أضافه إن كان غالب ماله من حرام لا ينبغي أن يقبل ويأكل من طعامه ما لم يخبر أن ذلك المال حلال استقرضه أو ورثه، وإن كان غالب ماله من حلال فلا بأس بأن يقبل ما لم يتبين له أن ذلك من الحرام؛ وهذا لأن أموال الناس لا تخلو عن قليل حرام وتخلو عن كثيره، فيعتبر الغالب ويبنى الحكم عليه".

(5 / 367، الفصل السابع عشر فی الھدایا والضیافات، ط: دارالکتب العلمیہ)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

" أهدى إلى رجل شيئاً أو أضافه إن كان غالب ماله من الحلال فلا بأس إلا أن يعلم بأنه حرام، فإن كان الغالب هو الحرام ينبغي أن لا يقبل الهدية، ولا يأكل الطعام إلا أن يخبره بأنه حلال ورثته أو استقرضته من رجل، كذا في الينابيع".

(5 / 342، الباب الثانی  عشر فی الھدایا والضیافات، ط: رشیدیہ)

وفیہ أیضاً:

"آكل الربا وكاسب الحرام أهدى إليه أو أضافه وغالب ماله حرام لا يقبل، ولا يأكل ما لم يخبره أن ذلك المال أصله حلال ورثه أو استقرضه، وإن كان غالب ماله حلالاً لا بأس بقبول هديته والأكل منها، كذا في الملتقط".

(5 / 343، الباب الثانی  عشر فی الھدایا والضیافات، ط: رشیدیہ)(مجمع الانھر، (2/529) کتاب الکراہیۃ، ط: دار احیاء التراث العربی)  

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144204201306

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں