بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

انسانی اعضاء عطیہ کرنے کا حکم،اور اس کے متعلق احکامات


سوال

اگر كوئی شخص مرض الموت کی حالت میں  اپنے اعضاء میں سے کسی عضو دینے کی وصیت کرے کہ مرنے کے بعد مثلاً میری آنکھیں یا گردے وغیرہ نکال کر کسی حاجت مند شخص کو دئے جائیں تو اولا یہ وصیت شرعا جائز ہے یا نہیں؟،ثانیا  اگر جائز ہو تو اس کے مرنے کے بعد جس کو یہ آنکھیں وغیرہ لگائی جائیں وہ اس کے ذریعے ثواب یا گناہ کا کام کرے تو اس پر مرتب ہونے والی جزاء و سزا کس کو ملے گی؟ ،کیونکہ نصوص پر نظر ڈالنے سے بندہ کے ذہن میں یہی خلجان ہے کہ مرتب شدہ جزاء وسزا کا مستحق کون ہوگا،ان نصوص میں سے بعض مندرجہ ذیل ہیں:

          1۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:ان السمع والبصر والفؤاد کل اولٰئك كان عنه مسئولا(الاسراء36)

          حدیث شریف میں ہے:

عن أبي هریرۃ رضي اللہ عنه عن النبي علیه السلام قال: كتب على ابن آدم نصیبه من الزنا مدرك ذلك لا محالة، العینان زناهما النظر و الأذنان زناهما الاستماع و اللسان زناه الکلام و الیدان زناهما البطش و الرجلان زناهما الخطا، و القلب یھوی و یتمنی و یصدق ذلك الفرج أو یكذبه."(مسلم)

          ثالثًا قیامت کے دن جب ہر انسان کے اعضاء اکھٹے کیے جائیں گے تو موصی کے وہ اعضاء جن کی اس نے وصیت کی تھی پھر اسے وصیت کے مطابق اس کے مرنے کے  بعد وہ کسی حاجت مند کو دیے گئے  تھے تو کیا وہ اعضاء اس کو واپس ملیں گے؟ یا ان سے محروم ہوگا،کیونکہ صحیح مسلم میں حدیث ہے جس کا مفہوم  ہے کہ حضرت طفیل بن عمر الدوسی  رضی اللہ عنہ کے ایک ساتھی نے شدت مرض کی وجہ سے انگلیوں کے جوڑ کاٹ ڈالے تھے، انتقال کے بعد حضرت طفیل نے اس کو خواب میں ایسی حالت میں دیکھا کہ اس کی ہیئت وصورت تو اچھی تھی، مگر اس نے اپنے دونوں ہاتھوں کو  چھپا رکھا تھا، وجہ  پوچھی تو جواب میں فرمایا کہ پروردگار کی طرف سے  مجھے کہا گیا کہ جس چیز کو تم نے خراب وبرباد کیا ہم اس کو درست نہیں کریں گے،بعد ازاں حضرت طفیل رضی اللہ نے  یہ قصہ رسول اللہ ﷺ کو سنایا تو حضور نے فرمایا: اے اللہ : اس کے ہاتھوں کو بھی بخش دے۔

          حدیث: وعن جابر رضي الله عنه: «أن الطفيل بن عمرو الدوسي لما هاجر النبي صلى الله عليه وسلم إلى المدينة هاجر إليه، وهاجر معه رجل من قومه، فمرض فجزع، فأخذ مشاقص له، فقطع بها براجمه، ‌فشخبت ‌يداه، حتى مات، فرآه الطفيل بن عمرو في منامه وهيئته حسنة ورآه مغطيا يديه، فقال: ما صنع بك ربك؟ فقال: غفر لي بهجرتي إلى نبيه صلى الله عليه وسلم. قال: ما لي أراك مغطيا يديك؟ قال: قيل لي: لن نصلح منك ما أفسدت، فقصها الطفيل على رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " اللهم وليديه فاغفر»". رواه مسلم.

جواب

1۔واضح رہے کہ کسی چیز کو ہبہ ،عطیہ کرنے کے لیے یا  کسی چیز  کی وصیت کرنے کے لیے ضروری ہے کہ وہ شے مال ہو، اور ہبہ،عطیہ کرنے والے یا وصیت کرنے والے کی ملکیت میں ہو،جبکہ صورت مسئولہ میں انسانی اعضاء سے خود اس انسان کو منفعت حاصل کرنے کا حق تو ہے، مگر انسان اس کا مالک نہیں ہوتا، بلکہ سارے اعضاء انسان کے پاس بطورِ امانت ہیں، جس کی حفاظت  کرنااس پر لازم ہے، اس وجہ سے اسے ہبہ،عطیہ کرنا یا اس کی وصیت کرنا  ہزگزجائز نہیں ہے،ایسا کرنے والا شرعا سخت گناہ گار قرار پائے گا،اور آخرت میں پکڑ ہوگی۔

          2۔اس کے باوجود اگر کسی شخص نے اپنے اعضاء عطیہ کرنے کی وصیت کی اور پھر وہ اعضاء کسی کو لگائے گیے اور دوسرے شخص نے ا س سے کوئی گناہ کا کام کیا تو اس کا گناہ اسی کو ملے گا جس نے اس عضو سے گناہ کا کام کیا۔

          3۔انسانی اعضاء چوں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بندے کو امانتاً دیے گیے ہیں،بندے کو اس سے صرف منفعت کا حق حاصل ہے،اسے کسی کو عطیہ کرنے کا حق حاصل نہیں ہے،مگر اس کے باوجود اگر کوئی اس جرم کا ارتکاب کرے گا تو سوالیہ پرچے میں درج حدیث کی رو سے اس شخص  کو  مرنے کے بعدیہ اعضاء دوبارہ نہیں ملیں گے۔

         تنویر الابصار مع الدر میں ہے:

"(وشرائطها كون الموصي أهلا للتمليك) فلم تجز من صغير ومجنون ومكاتب إلا إذا أضاف لعتقه كما سيجيء (وعدم استغراقه بالدين) لتقدمه على الوصية كما سيجيء (و) كون (الموصى له حيا وقتها) تحقيقا أو تقديرا ليشمل الحمل الموصى له فافهمه فإن به يسقط إيراد الشرنبلالي (و) كونه (غير وارث) وقت الموت (ولا قاتل) وهل يشترط كونه معلوما. قلت: نعم كما ذكره ابن سلطان وغيره في الباب الآتي (و) كون (الموصى به قابلا للتملك بعد موت الموصي) بعقد من العقود مالا أو نفعا موجودا للحال أم معدوما."

(کتاب الوصایا،ج6،ص649،ط:سعید)

            ہندیہ میں ہے:

"وأما حكمها ‌فوجوب ‌الحفظ على المودع وصيرورة المال أمانة في يده ووجوب أدائه عند طلب مالكه."

(کتاب الودیعۃ،ج4،ص338،ط:رشیدیہ)

         جواہر الفقہ میں ہے:

"والقسم الثانی  من السبب القریب اعنی مالم یکن محرکا وباعثاموصلا ...فھٰذا کلام الامام محمد افاد  ان اجارۃ البیت من الذی  بعد العلم بانہ یرید اتخاذہ کنیسۃ  لیست من الاعانۃ ،لان المعصیۃ  وان لم تقم بفعل الموجر ولکنہ سبب قریب  وصورۃ اعانۃ للمعصیۃ فیکرہ  لاجلہ ،فظہر بہ تفسیر قیام المعصیۃ بالعین ماھوکما بینا،وایضا افاد کلامہ جواز الاجارۃ اذا لم یعلم بقصدہ ،وھذا ھع التوفیق الحسن بین کلام المانعین کقاضی خان والمجوزین کالزیلعی وغیرہ بان المنع عند العلم والجواز عند عدمہ."

   (جواہر الفقہ،ج2،ص451،ط:دارالعلوم)

مرقاة المفاتيح ميںہے:

"لن نصلح منك ما أفسدت) : أي بيديك، ولعل التقدير إلا إن شفع رسول الله صلى الله عليه وسلم."

(کتاب القصاص،ج6،ص2263،ط:دارالفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144303100204

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں