بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

انسانی آنکھ لگوانا جائزہے یا نہیں ؟


سوال

ہمNGO چلاتے ہیں،جس میں ڈائریکٹر کے  طور پرمیں  کام کرتاہوں،جسمیں مختلف سکول وغیرہ میں جاکر بچوں کی آنکھوں کا چیک اپ وغیرہ کراتے ہیں،جن کو عینک کی ضرورت ہوتی ہے  ان کو عینک فراہم کرتے ہیں،البتہ  اکثر اوقات اس میں بعض بچوں کی آنکھیں خراب ہوتی ہے ( مثلا کسی کو  کوئی چوٹ لگی  ہویا کوئی اور وجہ ہو ) تو کینیڈا،سری لنکا، امریکا سے انسانی  آنکھ منگواکر ان بچوں کو لگواتے ہیں ، جو  علاج کرنے کے بعد بالکل درست کام کرتی ہے،اب پوچھنا یہ ہے کہ:

1۔ کیا اس طرح انسانی آنکھ منگواکر  ان بچوں کو لگوانا شرعی طور پر جائز ہے  یا نہیں؟

2۔نیز  ہمارا ادارہ غیر سرکاری ہے ،جس میں  ہم علاج معالجہ  کے لیے  لوگوں سے زکوۃ وصول کرتے ہیں،کیا زکوۃ کی رقم کو اس طرح استعمال کرنا شرعاً درست ہے یا نہیں؟

3۔ ان ہی زکوۃ وغیرہ کی رقوم سے  ہم اپنے  ٹیم میں موجود  ڈاکٹروں کو تنخواہ بھی دیتے ہیں اس کا شرعاً کیا حکم ہے؟

جواب

1۔واضح رہے کہ ا للہ تعالیٰ نے انسان کو اپنا جسم استعمال کرنے اور اُس سے فائدہ اٹھانےکاحق دیا ہے،لیکن یہ جسم اور جان انسان کے پاس اللہ تعالیٰ کی امانت ہے، انسان خود  اپنے جسم وجان کا مالک  نہیں ہے، لہٰذا انسان یہ کسی دوسرےشخص کو ہبہ نہیں کرسکتا اورنہ عطیہ کرنے کی وصیت کرسکتاہے۔ لہذا اپنے اعضاء کا زندگی میں یابعد از مرگ کسی کوعطیہ کرنا ناجائزوحرام ہے۔

نیز جس طرح انسان  زندگی میں قابلِ احترام وتکریم ہے اسی طرح موت کے بعد بھی اس کی عزت وتوقیر ضروری ہے ،اس کے اعضاء میں سے کسی عضو کو اس کے بدن سے جدا کرکے دوسرے انسان کودینے میں  انسانی  احترام وتکریم کی خلاف ورزی لازم آتی ہے، اسی بناپرفقہاءِ کرام نے علاج معالجہ اورشدیدمجبوری کے موقع پربھی انسانی اعضاء کے استعمال کو ممنوع قراردیاہےلہذا صورت مسئولہ میں انسانی آنکھ لگوانا جا ئز نہیں ہے ۔

2،3۔ واضح رہے کہ عطیات و صدقاتِ نافلہ سے ہر جائز فلاحی کام کرسکتے ہیں، تاہم زکاۃ کی ادائیگی کے لیے چوں کہ مستحقِ زکاۃ افراد کو مالک بنانا شرعاً ضروری ہے ، لہذاایسے  فلاحی کام جس میں مستحقِ زکاۃ شخص کو باضابطہ مالک بنایا جاتا ہو، جیسے مستحق افراد کے بچوں کے تعلیمی اخراجات یا مستحق مریض کے علاج معالجہ کے اخراجات اٹھانے میں (انہیں رقم یا دوا کا مالک بناکر) ان کی مدد کرنا وغیرہ یا انہیں راشن دے دینا، اس سے زکاۃ ادا ہوجائے گی؛لہذا صورت مسئولہ میں مستحقین زکاۃ   کے علاج معالجہ کے لیےزکوۃ کی رقم جمع کرنا جائز ہے ،البتہ مذکورہ فلاحی ادارے کے ذمہ دار کی شرعی ذمہ داری ہے کہ وہ  زکاۃ کی رقم صحیح مصرف خرچ کرے؛ یعنی صرف مسلمان فقیر، غریب، محتاج اور ضرورت مندوں میں بغیر کسی عوض کے مالکانہ طور پر تقسیم کرے، بصورتِ دیگر زکاۃ دینے والوں کی زکاۃ ادا نہ ہوگی،البتہ مذکورہ ادارہ اگر لوگوں سے مستحقین زکوۃ کے علاج ومعالجہ  کے لیے  زکوۃ کی رقوم دیتے ہوں تو زکوۃ سے مستحقین کے علاج اوراس میں آنے والے اخراجات کی ادئیگی کا طریقہ  یہ ہے کہ:  مستحق زکوۃ افراد سے ادارہ کے لوگ زکوۃ کی مد میں علاج کروانے کا وکالت لے لیں یعنی مستحق زکوۃ افراد ادارہ کو لوگوں سے زکوۃ وصول کرنے کا اور زکوۃ کی مد میں علاج کروانے کا  وکیل بنادیں خواہ زبانی طوپریا تحریری طورپر،تاہم  بہتر یہ ہے کہ  تحریری طورپر وکیل بنادیں تو ایسی صورت میں علاج میں آنے والے تمام اخراجات کی ادائیگی زکوۃ کی مدمیں کی جاسکتی ہے البتہ  براہ راست ادارہ  کے ڈاکٹروں کو  زکوٰۃ کی رقم سے تنخواہیں دینا جائز نہیں ہے؛  کیوں کہ تنخواہ کام کے عوض میں ہوتی ہے ،  جب کہ زکوٰۃ  بغیر عوض کے مستحق کو مالک بناکر دینا ضروری ہوتا ہے، نیز تنخواہ کی مد میں زکوٰۃ دینے سے زکوٰۃ دینے والوں کی زکوٰۃ بھی ادا نہیں ہوگی۔

فتاوٰی شامی میں ہے:

"والآدمي مكرم شرعا وإن كان كافرا فإيراد العقد عليه وابتذاله به وإلحاقه بالجمادات إذلال له. اهـ أي وهو غير جائز وبعضه في حكمه وصرح في فتح القدير ببطلانه."

(كتاب البيوع، باب البيع الفاسد، مطلب الآدمي مكرم شرعا ولو كافرا،ج:5،ص:58،ط: سعید)

فتاوٰی محمودیہ میں ہے:

"کوئی انسان فوت شدہ انسان کاجگر ،آنکھ ،دل وغیرہ دوسرے انسان کے جسم میں نہیں لگاسکتے،اگرکوئی  آدمی ایسی  وصیت کرتا ہےجیسا کہ سوال میں درج ہے تو یہ وصیت کرنا ناجائز  ہےاور وہ ناقابلِ نفاذ  نہیں ہے۔"

(کتاب الحظر والاباحۃ ،باب التداوی والمعالجۃ ،336/18، ط: ادارہ الفاروق)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"ولو نوى الزكاة بما يدفع المعلم إلى الخليفة، ولم يستأجره إن كان الخليفة بحال لو لم يدفعه يعلم الصبيان أيضا أجزأه، وإلا فلا." 

(كتاب الزكوة، الباب السابع فى المصارف، ج:1، ص:190، ط:مكتبه رشيديه)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144406101648

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں