بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

5 محرم 1447ھ 01 جولائی 2025 ء

دارالافتاء

 

انسان کی شخصیت پر نام کے اثرات


سوال

میرا نام ”عذراء“ (azra) ہے، میں اپنا نام بدل کر ”عیناء“ رکھنا چاہتی ہوں، کیا میرے لیے اس طرح کرنا درست ہے؟ نیز نام سے انسان کی شخصیت اور قسمت پر کوئی اثر پڑتا ہے یا نہیں؟ اور کیا نام بدلنے سے کوئی فائدہ حاصل ہوسکتا ہے؟

جواب

”عذراء“ نام بھی اپنے اچھے معنیٰ کے لحاظ سے اچھے اور رکھنے کے قابل ناموں میں سے ہے؛ کیونکہ ”عذراء“ دوشیزہ اور کنواری لڑکی کو کہا جاتا ہے۔ حضرت عیسیٰ علی نبینا وعلیہ السلام کی والدہ حضرت مریم علیہا السلام کا لقب بھی ”عذر اء البتول“ ہے؛ اس لیے کہ وہ زندگی بھر  ازدواجی زندگی سے کنارہ کش رہیں، اور اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی قدرتِ کاملہ  سے بطورِ معجزہ  بیٹا عطا فرمایا تھا۔ اس  کے علاوہ ”عذراء“ کے اور بھی مختلف معانی آتے ہیں، مثلاً:

(1)آسمان کا ایک ستارہ۔ (2)بند موتی:یعنی ایسا موتی جس میں سوراخ نہ کیا گیا ہو۔ (3)ریتیلی زمین جس پر کوئی نہ چلا ہو۔ (4)آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے شہر مدینہ منورہ کو بھی ”عذراء“ کہا جاتا ہے۔ اسی طرح گلے میں ڈالا جانے والا طوق، اور ایک قسم کا ایسا آلہ جس سے مجرم کو سزا دے کر جرم کا اقرار کرایا جائے، اسے بھی ”عذراء“ کہا جاتا ہے۔

الغرض ”عذراء“ ایک اچھا اور مناسب نام ہے، بلا وجہ اسے بدل کر ”عیناء“ نام رکھنے کی ضرورت نہیں، تاہم اگر آپ اپنا نام بدل کر ”عیناء“ رکھنا چاہتی ہیں تو بدل سکتی ہیں،  شرعی اعتبار سے اس میں کوئی حرج نہیں ہے؛ کیونکہ بلا ضرورت نام بدلنے سے متعلق کسی صریح نص میں کوئی ممانعت نہیں ہے، اور ”عیناء“ کا مطلب ہےبڑی اور کشادہ/ خوب صورت آنکھوں والی، عمدہ بات اور سرسبز و شاداب زمین۔ اسی طرح سے جنت کی حوروں کی صفات میں سے ایک صفت ”عیناء“ بھی ہے۔

باقی حقیقت ہے کہ انسان کی شخصیت اور کردار پر اچھے نام کے اچھے اثرات پڑتے ہیں اور بُرے نام کے ممکنہ بُرے اثرات بھی مرتب ہوتے ہیں، تجربات اس پر شاہد ہیں اور عقلاء حضرات بھی اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں؛ اسی لیے شریعت نے معنیٰ و مفہوم کے اعتبار سے اچھا نام رکھنے کا حکم دیا، تاکہ بچے کی زندگی کی شروعات کی پہلی اینٹ درست طور پر رکھی جائے، اور اگر کسی کا نام معنیٰ و مفہوم کے اعتبار سے اچھا نہ ہو تو شریعت نے اسے بدلنے کا بھی حکم دیا ہے، اسلامی تاریخ میں بُرے ناموں کی تبدیلی کی بے شمار مثالیں ملتی ہیں، لیکن یہ تبدیلی محض نیک فالی کے طور پر ہے، تبدیلی کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ نام بدلنے  سے انسان کی تقدیر بدل جاتی ہے، یا نام بدلنے کی وجہ سے دنیوی یا اخروی اعتبار سے اسے کوئی فائدہ حاصل ہوتا ہے، اور نہ ہی ایسا عقیدہ رکھنا درست ہے، ہاں! اگر کسی کی تقدیر ہی میں لکھا ہو کہ نام بدلنے سے تقدیر بدل جائے گی یا اسے کوئی فائدہ حاصل ہوگا تو یہ نام کا بدلنا بھی اسی تقدیر کی وجہ سے ہوگا۔ مشہور محدث اور فقیہ ملا علی قاری  رحمۃ اللہ علیہ  مرقات شرح مشکوٰۃ میں لکھتے ہیں:

”اپنی اولاداورخادم وغیرہ کے لیے اچھے نام کا انتخاب کرنا سنت ہے؛ کیونکہ بسا اوقات بُرا نام تقدیر کے موافق ہوجاتا ہے، مثال کے طور پر اگر کوئی شخص اپنے بیٹے کا نام ”خسار“ (جس کے معنی گھاٹے اور نقصان کے ہے) رکھے تو ہو سکتا ہے کہ کسی موقع پرخود وہ شخص یا اس کا بیٹا تقدیرِ الہٰی کے تحت خسارہ میں مبتلا ہو جائے اور اس کے نتیجے میں لوگ یہ سمجھنے لگیں کہ اس کا خسارہ اور نقصان میں مبتلا ہونا نام کی وجہ سے ہے اور اسے منحوس جاننے لگیں، اور اس کی ہم نشینی اور اس سے ملنے جلنے سے احتراز کرنے لگ جائیں۔ حضرت سعید ابن المسیب رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ  کی خدمت میں ایک شخص حاضر ہوا  ، دعا سلام اور خیروخبر کے بعد حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ  نے اس شخص سے پوچھا: تیرا کیا نام ہے؟ اس نے کہا: جمرۃ (انگارہ)، دریافت کیا: کس کے بیٹے ہو؟ اس نے جواب دیا کہ: شہاب (آگ کا شعلہ) کا بیٹا ہوں، پوچھا کہ کس قبیلہ سے تعلق ہے؟ اس نے جواب دیا: حرقۃ (سوخت شدہ، جلا شدہ بستی) سے، آپ نے سوال کیا، تمہاری رہائش کہاں ہے؟ جواب دیا: حرۃ النار (آگ کی سرزمین)، آپ نے پھرسوال کیا، کونسی جگہ میں؟ اس آدمی نے کہا: ذات لظی (آگ کے شعلوں سے بھڑکنے والا ٹیلہ) میں، یہ سن کر فاروق اعظم  رضی اللہ عنہ  نے فرمایا: جلدی اپنے گھر والوں کی خبر لو! وہ سب آگ میں جل کر راکھ ہو گئے ہیں۔ جب اس نے جاکر دیکھاتوویسے ہی پایا، جیسا کہ فاروق اعظم  رضی اللہ عنہ  نے فرمایا تھا۔ شاید یہی وجہ ہے اس بات کہ ”نام آسمان سے اترتی ہے۔“ یعنی جس طرح تقدیر کے فیصلے آسمانوں میں طے ہوتی ہے اسی طرح ناموں کے فیصلے بھی آسمانوں سے طے ہوکر زمین پر اترتی ہے اور نام بھی تقدیر کے موافق ہی ہوتی ہے۔“

اسی طرح حضرت سعید ابن المسیب رحمہ اللہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ ان کے والد جن کا نام حزن تھا، ایک مرتبہ وہ جناب نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا: تمہارا کیا نام ہے؟ انہوں نے کہا: میرا نام ”حزن“ ہے (جس کا مطلب ہے سخت اور دشوار گزار زمین) آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”حزن“ کوئی اچھا نام نہیں ہے، لہٰذا میں تمہارا نام تبدیل کر کے ”حزن“ کے بجائے ”سہل“ رکھ لیتا ہوں۔ (کیونکہ سہل کا معنی ہے کہ نرم اور ہموار زمین جہاں انسان کو آرام ملے) اس پر انہوں نے کہا کہ میرے باپ نے میرے لیے جو نام رکھا ہے ، میں اس کو تبدیل نہیں کر سکتا۔ حضرت سعید ابن المسیب رحمہ اللہ  فرماتے ہیں کہ  اس کے بعد سے ہمارے خاندان میں ہمیشہ سختی اور غمی رہی۔

 غرض انسان کی شخصیت پر نام کا اثر پڑتا ہے، اچھے ناموں کے اچھے اور بُرے ناموں کے بُرے اثرات ہوتے ہیں،اور برا نام بدلنے کا حکم ہے، مگر نام تبدیل کرنے سے قسمت نہیں بدلتی اور نہ ہی اس سے انسان کو کوئی فائدہ حاصل ہوتا ہے، بلکہ نام نیک فالی کے طور پر بدلی جاتی ہے۔

بخاری شریف میں ہے:

"عن ابن المسيب، عن أبيه: أن أباه جاء إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقال: (ما اسمك). قال: حزن، قال: (أنت سهل). قال: لا أغير اسما سمانيه أبي، قال ابن المسيب: فما زالت الحزونة فينا بعد."

(كتاب الأدب، باب اسم الحزن، رقم الحدیث:5836، ج:5، ص:2288، ط:دار اليمامة دمشق)

لسان العرب میں ہے:

"والبتول من النساء: المنقطعة عن الرجال لا أرب لها فيهم؛ وبها سميت مريم أم المسيح، على نبينا وعليه الصلاة والسلام، وقالوا لمريم العذراء البتول والبتيل لذلك، وفي التهذيب: لتركها التزويج. والبتول من النساء: العذراء المنقطعة من الأزواج، ويقال: هي المنقطعة إلى الله عز وجل عن الدنيا."

(حرف اللام، فصل الباء الموحدة، ج:11، ص:43، ط:دار صادر بيروت)

القاموس المحيط میں ہے:

"والعذراء: البكر، ج: العذارى والعذاري والعذراوات، وشيء من حديد يعذب به الإنسان لإقرار بأمر ونحوه، ورملة لم توطأ، ودرة لم تثقب، وبرج السنبلة أو الجوزاء، ومدينة النبي صلى الله عليه وسلم."

(باب الراء، فصل العین، ص:437، ط:مؤسسة الرسالة للطباعة والنشر والتوزيع بيروت)

الزاهر فی معانی كلمات الناس میں ہے:

"والعين. جمع: ‌عيناء، والعيناء: الحسنة العين، الواسعتها."

(ج:1، ص:28، ط:مؤسسة الرسالة بيروت)

تاج العروس میں ہے:

"وللكلمة الحسناء ‌عيناء. وأنشد قول الشاعر: (وعوراء جاءت من أخ فرددتها … بسالمة العينين طالبة عذرا) أي بكلمة حسناء لم تكن عوراء."

(حرف:ع ور، ج:13، ص:160، ط:دار إحياء التراث العربي بيروت)

المحیط فی اللغۃ میں ہے:

"وعيناء ثبير: شجراء في رأسه. وكل عيناء فهي خضراء. وقافية عيناء: نافذة، وقواف عين. والعيناء من الضأن: البيضاء وعيناها في سواد."

(حرف العين، باب العين والنون، ج:2، ص:163، ط:عالم الكتب بيروت)

مرقاۃ المفاتیح  شرح مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"(وعن بريدة - رضي الله تعالى عنه - أن النبي صلى الله عليه وسلم كان لا يتطير من شيء) أي من جهة شيء من الأشياء إذا أراد فعله، ويمكن أن تكون " من " مرادفة للباء، فالمعنى ما كان يتطير بشيء مما يتطير به الناس، (فإذا بعث عاملا) : أي أراد إرسال عامل (سأل عن اسمه، إذا أعجبه اسمه فرح به، ورئي) : أي وظهر (بشر ذلك) بكسر الموحدة أي: أثر بشاشته وانبساطه (في وجهه، وإن كره اسمه رئي كراهية ذلك) : أي ذلك الاسم المكروه (في وجهه) : أي: وغير ذلك الاسم إلى اسم حسن، ففي رواية البزار والطبراني في الأوسط، عن أبي هريرة: «إذا بعثتم إلي رجلا فابعثوه حسن الوجه حسن الاسم» . قال ابن الملك: فالسنة أن يختار الإنسان لولده وخادمه من الأسماء الحسنة، فإن الأسماء المكروهة قد توافق القدر كما لو سمي أحد ابنه بخسار، فربما جرى قضاء الله لأن يلحق بذلك الرجل أو ابنه خسار، فيعتقد بعض الناس أن ذلك سبب اسمه، فيتشاءمون ويحترزون عن مجالسته ومواصلته.

وفي شرح السنة: ينبغي للإنسان أن يختار لولده وخدمه الأسماء الحسنة، فإن الأسماء المكروهة قد توافق القدر. روي عن سعيد بن المسيب أن عمر بن الخطاب - رضي الله تعالى عنه - قال لرجل: ما اسمك؟ قال: جمرة. قال: ابن من؟ قال: ابن شهاب. قال: ممن؟ قال: من الحراقة. قال: أين مسكنك؟ قال: بحرة النار. قال: بأيها؟ قال: بذات لظى، فقال عمر: أدرك أهلك فقد احترقوا، فكان كما قال عمر رضي الله تعالى عنه، اهـ. ولعل في هذا المعنى ما قيل: إن الأسماء تنزل من السماء، فالحديث في الجملة يرد على ما في الجاهلية من تسمية أولادهم بأسماء قبيحة، ككلب، وأسد، وذئب. وعبيدهم، براشد ونجيح ونحوهما. معللين بأن أبناءنا لأعدائنا وخدمنا لأنفسنا."

(كتاب الطب والرقى، باب الفأل والطيرة، رقم الحدیث:4588، ج:7، ص:2900، ط:دار الفكر بيروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144611100624

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں