بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

شرعًا انسان کے بڑھاپے کا معیار اور بڑھاپے سے متعلق فضائل کے استحقاق کی عمر


سوال

شریعت میں انسان کے بڑھاپے کا معیار کیا ہے؟ کیا کوئی مخصوص عمر ہے کہ جس تک پہنچ کر انسان کو بوڑھا شمار کیا جاتا ہے؟،ایک شخص ساٹھ سال کا ہے لیکن جوانوں کی طرح چاق و چوبند ہے ،اب کیا یہ اپنی عمر کی وجہ سے بوڑھا شمار ہوگا؟ ایک شخص چالیس سال کا ہے لیکن بیمار اور ناتواں ہے کیا یہ شخص اپنی صحت کی وجہ سے بوڑھا شمار ہوگا؟ اسی طرح مختلف احادیث میں جو بڑھاپے  کا تذکرہ کیا گیا ہے اس میں بڑھاپے کی کون سی عمر مراد ہے؟

جواب

قرآنِ مجید نے 40 سال کی عمر کو پختگی کی عمر قرار دیا ہے۔ عام فہم بات ہے کہ انسان کی بلوغت کے بعد اس کے شباب کا آغاز ہو جاتا ہے، 40 سال کی عمر شباب یعنی جوانی کا اختتام ہوتا ہے۔ یعنی بلوغت سے  لے کر 40  سال تک کی عمر جوانی کی عمر ہی کہلاتی ہے،  اس کے بعد بڑھاپے کی عمر کی ابتدا ہوتی ہے ۔

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

"وَوَصَّيْنَا الْإِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ إِحْسَانًا حَمَلَتْهُ أُمُّهُ كُرْهًا وَوَضَعَتْهُ كُرْهًا وَحَمْلُهُ وَفِصَالُهُ ثَلَاثُونَ شَهْرًا حَتَّى إِذَا بَلَغَ أَشُدَّهُ وَبَلَغَ أَرْبَعِينَ سَنَةً."

’’اور ہم نے انسان کو اپنے والدین کے ساتھ نیک سلوک کرنے کاحکم فرمایا۔ اس کی ماں نے اس کو تکلیف سے (پیٹ میں) اٹھائے رکھا اور اسے تکلیف کے ساتھ جنا، اور اس کا (پیٹ میں) اٹھانا اور اس کا دودھ چھڑانا (یعنی زمانۂ حمل و رضاعت) تیس ماہ (پر مشتمل) ہے۔ یہاں تک کہ وہ اپنی جوانی کو پہنچ جاتا ہے اور (پھر) چالیس سال (کی پختہ عمر) کو پہنچتا ہے۔‘‘

(الأحقاف، 46: 15)

امام فخرالدین رازی نے مذکورہ آیت مبارکہ کی تفسیر میں لکھا ہے:

"اختلف المفسّرون في تفسير الأشدّ، قال ابن عبّاس في رواية عطاء يريد ثماني عشرة سنة والأكثرون من المفسرين على أنّه ثلاثة وثلاثون سنة، واحتجّ الفرّاء عليه بأن قال إنّ الأربعين أقرب في النسق إلى ثلاث وثلاثين منها إلى ثمانية عشر. وقال الزجاج الأولى حمله على ثلاث وثلاثين سنة لأن هذا الوقت الذي يكمل فيه بدن الإنسان."

’’اس آیت میں اشد (پوری قوت کو پہنچا) کی تفسیر میں اختلاف ہے، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ اس سے مراد اٹھارہ سال اور اکثر مفسرین نے کہا کہ اس سے مراد تینتیس(33) سال ہے۔ فراء نے اس پر یہ دلیل قائم کی ہے اٹھارہ کی بہ نسبت تینتیس (33) سال، چالیس سال سے زیادہ قریب ہے۔ اور زجاج نے کہا کہ تینتیس (33) سال، اس لیے راجح ہیں کہ اس عمر میں انسان کے بدن کی قوت اپنے کمال کو پہنچ جاتی ہے۔‘‘

(الرازي، التفسير الكبير، 28: 15، بيروت: دار الكتب العلمية)

مذکورہ بالا تصریحات سے معلوم ہوا کہ اٹھارہ سال سے چالیس سال تک کی عمر کو جوانی کی عمر کہا جاسکتا ہے۔

انسان کی عمر مختلف مراحل پر مشتمل ہوتی ہے۔ پیدائش سے بلوغت تک کا عرصہ بچپن کہلاتا ہے، پھر بلوغت سے اٹھارہ سال کی عمر کو نوجوانی اور اٹھارہ سال سے چالیس سال تک کی عمر کو جوانی کہا جاتا ہے۔ اس کے بعد بڑھاپا شروع ہو جاتا ہے۔

 نیز  اس سلسلے میں  مخلتف اقوال موجود ہیں ، بعض حضرات سے چالیس سال تک، بعض حضرات سے اس سے کم وبیش  اقوال بھی منقول ہیں، الفاظ حدیث سے معلوم ہوتا ہےکہ بوڑھے شخص سےمراد وہ شخص ہے کہ جس کی عمر اتنی ہو چکی  ہوکہ اس کے اندر شہوت  غالب رہنے اور خواہشاتِ نفسانیہ پر عمل کرنے  کا داعیہ مضبوط نہ رہتا ہو۔

المحدث الفاصل میں ہے:

"اختلف في ‌حد ‌الكهولة، فقيل: الكهل من الرجال: من زاد على ثلاثين سنة إلى الأربعين. وقيل: من ثلاث وثلاثين إلى الخمسين. وقيل: من اثنين وأربعين إلى ثلاث وستين." 

 (‌‌‌‌القول في فضل من جمع بين الرّواية والدّراية، القول في المحدّث والحدّ الذي إذا بلغه، ص: 355، ط: دار الذخائر)

المغرب في ترتيب المعرب ميں ہے:

"(ك هـ ل) : (‌الكهل) الذي انتهى شبابه وذلك بعد الأربعين."

  (باب اللام، اللام مع الهمزة، ص419، ط:دار الكتاب العربي)

تهذيب اللغة میں  ہے:

"قلت: وكلام العرب أن المجتمع من الرجال والمستوي هو الذي تم شبابه، وذلك إذا تمت له ثمان وعشرون سنة فيكون حينئذ مجتمعا ومستويا إلى أن تتم له ثلاث وثلاثون سنة، ثم يدخل في ‌حد ‌الكهولة، ويحتمل أن يكون بلوغ الأربعين غاية الاستواء وكمال العقل والحنكة، والله أعلم."

(الجزء 13، باب السين والميم، 13/ 85، ط: دار إحياء التراث العربي - بيروت)

لسان العرب میں ہے:

"قال أبو منصور: وكلام العرب أن المجتمع من الرجال والمستوي الذي تم شبابه، وذلك إذا تمت ثمان وعشرون سنة فيكون مجتمعا ومستويا إلى أن يتم له ثلاث وثلاثون سنة، ثم يدخل في ‌حد ‌الكهولة، ويحتمل أن يكون بلوغ الأربعين غاية الاستواء وكمال العقل. ومكان سوي وسي: مستو. وأرض سي: مستوية."

(‌‌‌‌و- ي، فصل السين المهملة، 14/ 414، ط: دار صادر - بيروت)

تفسير ابن عطية  المحرر الوجيز في تفسير الكتاب العزيز میں ہے:

"واختلف الناس في ‌حد ‌الكهولة، فقيل: الكهل ابن أربعين سنة، وقيل: ابن خمس وثلاثين، وقيل، ابن ثلاث وثلاثين، وقيل: ابن اثنين وثلاثين، وهذا حد أولها. وأما آخرها فاثنتان وخمسون، ثم يدخل سن الشيخوخة."

 (سورة آل عمران، 1/ 437، ط: دار الكتب العلمية - بيروت)

تاج العروس من جواهر القاموس میں ہے:

"وفي التهذيب:} المستوي من الرجال الذي بلغ الغاية من شبابه وتمام خلقه وعقله وذلك بتمام ثمان وعشرين إلى تمام ثلاثين ثم يدخل في ‌حد ‌الكهولة، ويحتمل كون بلوغ الأربعين غاية."

(الجزء 38 ، سوو، 38 / 331، ط: دار الهداية) 

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144501100601

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں