بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

انسان کے دمِ غیر مسفوح کا حکم


سوال

انسان کا خون مطلقاًناپاک ہے یا اس میں بھی مسفوح اور غیر مسفوح کا فرق ہے؟

جواب

انسان کی رگوں میں بہنے والا خون ناپاک ہے، جب کہ دم غیر مسفوح مثلًا دل، گردے وغیرہ کا خون پاک ہے۔ نیز جسم سے اگر اتنا خون نکلے جو اپنے نکلنے کی جگہ سے بہنے کی صلاحیت رکھتا ہو (خواہ اسے بہنے سے پہلے ہی صاف کردیا جائے) وہ ناپاک ہے، اور اگر نکلنے والا خون  نکلنے کی جگہ سے تجاوز نہ کرے ، تو وہ نجس نہیں ہے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) - (1 / 319):

(قوله: وما بقي في لحم إلخ) يوهم أن هذه الدماء طاهرة ولو كانت مسفوحة وليس بمراد. فهي خارجة بقيد المسفوح كما هو صريح كلام البحر. وأفاده ح. وفي البزازية: وكذا الدم الباقي في عروق المذكاة بعد الذبح.
وعن الإمام الثاني أنه يفسد الثوب إذا فحش ولايفسد القدر للضرورة أو الأثر، فإنه كان يرى في برمة عائشة - رضي الله عنها - صفرة دم العنق والدم الخارج من الكبد، لو من غيره فنجس، وإن منه فطاهر، وكذا الدم الخارج من اللحم المهزول عند القطع. إن منه فطاهر وإلا فلا، وكذا دم مطلق اللحم ودم القلب. قال القاضي: الكبد والطحال طاهران قبل الغسل، حتى لو طلي به وجه الخف وصلي به جاز. اهـ".

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144108201207

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں