بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

عنین کی زوجہ کاحکم


سوال

میری عمر ۳۱ سال ہے میرا نکاح  ۱۲جون ۲۰۲۲ء کو اپنے رشتہ داروں میں ہوا،رخصتی بھی ہوگئی ہے،شادی کی پہلی رات ہمارے درمیان سوائے باتوں کے کچھ نہیں ہوا ،اور دوسری رات میرے شوہر نے اپنے بارے میں بتایا کہ  مجھے مردانہ کمزوری ہے،اورنفس کا مسئلہ ہے ،جس کی وجہ سے ہم ہمبستری نہیں کرسکتے ،اور آج میری شادی کو ۳۱ دن ہوگئے ہیں  ابھی تک ہم بستری نہیں ہوئی،ان کا میڈیکل چیک اپ بھی کروایا ،اور رپورٹ سے یہ بھی ثابت ہوگیا ہےکہ ان کا یہ مسئلہ  ہے،میں نے دونوں خاندان والوں سے بات کی تو وہ مجھے صبر کی تلقین کررہے ہیں ، الحمد للہ میں نے صبر کیا مگراب میرے اس صبر کی بھی انتہا ء ہے،اللہ کا واسطہ مجھے قرآن و حدیث کی روشنی میں ایسا مشورہ دیں کہ میرے نفس کی کوئی شرارت نہ ہوجائے،اور اب میں  اپنے شوہر کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی۔

جواب

 صورتِ مسئولہ میں سائلہ کا   شوہر اگر واقعۃ ًنامرد ہے اور  ازدواجی حقوق ادا کرنے سے بالکل قاصر ہے تو ایسے شخص کو فقہی اصطلاح میں ’’عنین‘‘ کہا جاتاہے، عنین کے لیے سب سے پہلے حکم یہ ہے کہ اگر وہ قابل ِ علاج ہو تو اُسے چاہیے کہ اپنا علاج کروائے،تاکہ وہ ازدواجی تعلق قائم کرنے کے قابل ہوجائے۔اگر مرض قابلِ علاج نہیں ہے تو ایسے شوہر کوچاہیے کہ وہ معاملہ لٹکا کر بیوی کو ذہنی اذیت دینے کے بجائے  بیوی کے تقاضے پر خود ہی طلاق دے دے تاکہ  اس کی بیوی  دوسری جگہ شادی کرسکے،ایسی حالت میں طلاق نہ دینا اور اپنی بیوی کو مجبور کرکے نکاح میں لٹکا کر رکھنا اس کے لیےشرعاًجائز نہیں ،اگر شوہر  اپنا علاج نہیں کراتا  اور طلاق بھی نہیں دے رہاتواس صور ت میں مجبوراً بیوی کو  عدالت کے ذریعہ اپنا نکاح فسخ کرنے کا اختیار ہوتا ہے بشرطیکہ نکاح سے پہلے اسے اپنے شوہر کے عنین ہونے کا علم نہ ہو، اور  نکاح کے بعد شوہر  کے بارے میں معلوم ہونے پر اس نے اس شوہر کے ساتھ  رہنے پر رضامندی کا اظہار بھی نہ کیا ہو۔ ’’عنین‘‘ سے آزادی حاصل کرنے کا شرعی طریقہ یہ ہے:

 ’’عنین‘‘ (نامرد) شخص کی بیوی کوچاہیے کہ وہ کسی مسلمان جج کی عدالت میں دعویٰ دائر کرے کہ اس کا شوہر ہمبستری کے قابل نہیں ہے ،  لڑکی کے دعوے  کے بعد جج اس کے شوہر کوطلب کرکے تحقیق کرے گا، اگرثابت ہوجائے کہ شوہر قابلِ علاج نہیں ہےتو  لڑکی کے  جدائی کے مطالبے پر  جج  فوراً ہی فسخ ِ نکاح کااختیار رکھتاہے۔اور اگر تحقیق کے بعد ثابت ہو کہ شوہر   کا مرض قابل ِ علاج  ہے تو   جج مذکورہ لڑکی کے شوہرکو ایک سال کی مہلت دے گا  کہ مزید علاج وغیرہ کرکے بیوی کا حق ادا کرے،  ایک سال بعد بھی اگروہ ہم بستری پرقادر نہ ہو تو جج مذکورہ لڑکی سے ایک مرتبہ پھرپوچھے گا کہ وہ اسی شوہر کے ساتھ رہنا چاہتی ہے یاجدائی چاہتی ہے؟    پھراگر لڑکی اسی  شوہر کے ساتھ رہنے پر رضامندی ظاہر کرے تو ان کا نکاح برقرار رکھا جائے گا،اور اگرلڑکی جدائی کا مطالبہ کرے توجج دونوں کے درمیان تفریق کردے گا،  اس کے بعد لڑکی عدت گزار کر دوسری جگہ نکاح کرنے میں آزاد ہوگی۔

"المعجم الکبیر للطبراني"میں ہے:

"حدثنا محمد بن النضر الأزدي، ثنا أبو غسان، ثنا قيس بن الربيع، أنا الركين بن الربيع بن عميلة، عن أبيه، عن عبد الله، قال: يؤجل ‌العنين سنة، فإن وصل إليها وإلا فرق بينهما، ولها الصداق".

(خطبة ابن مسعود ،ومن كلامه،ج:9،ص:343،رقم :9706،ط:ابن تيميه ۔القاهرة)

"المحيط البرهاني"  میں ہے:

"وإذا وجدت المرأة زوجها عنینًا فلها الخیار، إن شاء ت أقامت معه کذٰلك، وإن شاء ت خاصمته عند القاضي وطلبت الفرقة".

( کتاب النکاح  ،الفصل الثالث والعشرون: في العنين والمجبوب والخصي ،ج: 3،ص:173،ط:دار الكتب العلمية) 

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(هو) لغةً: من لايقدر على الجماع، فعيل بمعنى مفعول، جمعه عنن. وشرعًا: (من لايقدر على جماع فرج زوجته) يعني لمانع منه ككبر سن، أو سحر، إذ الرتقاء لا خيار لها للمانع منها خانية. (إذا وجدت) المرأة (زوجها مجبوبا) ، أو مقطوع الذكر فقط أو صغيره جدا كالزر، ولو قصيرا لا يمكنه إدخاله داخل الفرج فليس لها الفرقة بحر، وفيه نظر.وفيه: المجبوب كالعنين إلا في مسألتين؛ التأجيل، ومجيء الولد (فرق) الحاكم بطلبها لو حرة بالغة غير رتقاء وقرناء وغير عالمة بحاله قبل النكاح وغير راضية به بعده (بينهما في الحال) ولو المجبوب صغيرًا لعدم فائدة التأجيل.

 وفي الرد:(قوله: وغير عالمة بحاله إلخ) أما لو كانت عالمة فلا خيار لها على المذهب كما يأتي، وكذا لو رضيت به بعد النكاح".

(كتاب الطلاق ،باب العنين،ج:3،ص:494۔495،ط:سعيد)

فتاویٰ عالمگیری میں ہے:

"لو ‌وجدت ‌المرأة زوجها مجبوبا خيرها القاضي للحال ولا يؤجل كذا في فتاوى قاضي خان. ويلحق بالمجبوب من كان ذكره صغيرا جدا كالزر".

(كتاب الطلاق،الباب الثاني عشر في العنين،ج:1،ص:522،ط:ماجدية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144312100789

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں