بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

انفرادی عشاء پڑھ کر تراویح کی امامت کا حکم


سوال

حافظ صاحب کے دیر سے پہنچنے کی وجہ سے فرض کی جماعت کسی دوسرے نے پڑھادی، اس کے بعد حافظ صاحب بھی پہنچ گئے ، انہوں نے اکیلے فرض پڑھ کر تراویح کی جماعت کرائی،اس میں کوئی حرج تو نہیں ؟ تفصیلی و مکمل باحوالہ جواب عنایت فرماکر ممنون فرمائیں۔

جواب

واضح ہو کہ دیگر سنت نمازوں کے بر خلاف تراویح کی نماز  تداعی کے ساتھ  باجماعت ادا کی جاتی ہے تاہم  آثار میں چونکہ  تراویح کی جماعت  فرض نماز کی جماعت کے ساتھ ہی وارد ہوئی ہے لہذا تراویح کی جماعت فرض کی جماعت کے تابع ہے ، مذکورہ تفصیل کے بعد جاننا چاہیے کہ اگر ایک شخص نے عشاء منفرداً پڑھی اور پھر تراویح کی جماعت میں شامل ہوا اور وہ تراویح کی جماعت عشاء کی فرض نماز کی جماعت کے بعد پڑھی جارہی ہو تو عشاء کی نماز منفرداً پڑھنے والے کے لیے تراویح کی جماعت میں شامل ہونا ممنوع نہیں ہے اس لیے کہ تراویح کی جماعت بھی درست ہے (کیونکہ وہ فرض جماعت کے بعد پڑھی جارہی ہے) اور عشاء منفرداً پڑھنے والے  کا جماعت میں شامل  ہونا بھی درست ہے (کیونکہ اس میں کسی محذور ؍ غیر شرعی امر کا ارتکاب نہیں ہے)۔ اور جب عشاء منفرداً پڑھنے والے کا تراویح کی جماعت میں شامل ہونا ممنوع نہیں ہے تو امامت کی شرائط پائے جانے کے بعد تراویح کی امامت کرنا بھی ممنوع نہیں ہے۔

لہذا صورت مسئولہ میں جس حافظ صاحب کی عشاء کی باجماعت نماز رہ جائے، وہ منفرداً عشاء ادا کرنے کے بعد تراویح کی جماعت کی امامت کر سکتا ہے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"صلى العشاء وحده فله أن يصلي التراويح مع الإمام ولو تركوا الجماعة في الفرض ليس لهم أن يصلوا التراويح بجماعة."

(كتاب الصلاة، الباب التاسع في النوافل، فصل في التراويح، ج1، ص117، رشيدية)

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله لأنها تبع) أي لأن جماعتها تبع لجماعة الفرض فإنها لم تقم إلا بجماعة الفرض، فلو أقيمت بجماعة وحدها كانت مخالفة للوارد فيها فلم تكن مشروعة؛ أما لو صليت بجماعة الفرض وكان رجل قد صلى الفرض وحده فله أن يصليها مع ذلك الإمام لأن جماعتهم مشروعة فله الدخول فيها معهم لعدم المحذور، هذا ما ظهر لي في وجهه، وبه ظهر أن التعليل المذكور لا يشمل المصلي وحده، فظهر صحة التفريع بقوله فمصليه وحده إلخ فافهم."

(كتاب الصلاة، باب الوتر والنوافل، ج2، ص48، سعيد)

حلبي كبيرمیں ہے:

"لو صلى العشاء وحده فله أن يصلى التراويح مع الإمام وهو الصحيح حتى لو دخل بعد ما صلى الإمام الفرض وشرع في التراويح فإنه يصلى الفرض أولا وحده ثم يتابعه في التراويح وفي القنية لو تركوا الجماعة في الفرض ليس لهم أن يصلوا التراويح جماعة لأنها تبع للجماعة."

(كتاب الصلاة، التراويح، فروع، ص410، مطبع عارف آفندي)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144407101754

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں