بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

5 جمادى الاخرى 1446ھ 08 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

انڈیا کے بینک میں ملازمت کا حکم


سوال

انڈیا کے بینک میں نوکری کرنا کیسا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ قرآن و حدیث کی رو سے سود لینا، دینا، سودی معاملہ لکھنا یا اس میں گواہ بننا اور تعاون کرنا سب ناجائز اور حرام ہے،بینکوں کے کاروبار اور ان کی آمدن کا مدار سودی لین دین پر ہے اور وہ اپنے ملازمین کو تنخواہ بھی سود کے پیسوں سے دیتے ہیں، نیز بینک میں ملازمت گناہ کے کام میں معاونت ہے،   لہٰذا کسی بینک میں کسی بھی قسم کی نوکری کرنا جائز نہیں ہے اور اس سے حاصل ہونے والی تنخواہ بھی حرام ہے۔

احکام القرآن للجصاص میں ہے:

"ولا ‌تعاونوا على الإثم والعدوان نهي عن معاونة غيرنا على معاصي الله تعالى."

(سورۃ المائدہ، آیت3، ص:296، ج:3، ط:دار إحیاء التراث العربی)

مشکوٰۃ المصابیح میں ہے:

"عن جابر، قال: «لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم آكل الربا، ومؤكله، وكاتبه، وشاهديه» ، وقال: «هم سواء»."

(باب الربا، ص:243، ج:1، ط:قدیمی) 

ترجمہ: حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے سود لینے والے اور دینے والے اور لکھنے والے اور گواہی دینے والے پر لعنت کی ہے اور فرمایا: یہ سب لوگ اس میں برابر ہیں، یعنی اصل گناہ میں سب برابر ہیں اگرچہ مقدار اور کام میں مختلف ہیں۔

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307101482

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں