بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

انکم ٹیکس سے استثنا کی ایک صورت


سوال

حکومت پاکستان نے 2018 میں ایک اسکیم روشناس کرائی تھی ۔ جس میں ٪5 ٹیکس دے کر کوئی شخص اپنی پوشیدہ آمدنی  کو ظاہر کرسکتا ہے ٪5 ٹیکس مقررہ تاریخ پر دینے کے بعد کوئی پوچھ نہیں ہوگی ۔آمدنی ظاہر کرکے گوشورا رہ جمع کردیا گیا، مقررہ تاریخ کوcheque crossکے ذریعے بینک میں ٪5کاچالان بھی جمع کردیا ۔ لیکن ٹیکس کیوں کہcheque crossکے ذریعہ جمع ہوا، اس  لیے نیشنل بینک میں مقررہ تاریخ کے دو روز بعد پیسے آئے، اس  لیے  چالان پر جو مہر لگی وہ دو روز کے بعد کی لگی ۔ جس کی وجہ سے انکم ٹیکس آفیسر  نے ہمارے  گشوارہ کو reject کردیا اور اب ظاہر شدہ آمدنی پر پورا ٪35 ٹیکس مانگ رہے ہیں ۔ جب کہ اس میں ہمارا کوئی قصور نہیں ۔ یہ بینک کی پالیسی ہے کہ دو روز کے بعد پیسہ جائے۔براہِ کرم راہ نمائی  فرمایئے، اس سلسے  میں حکومت یا انکم ٹیس آفیسر کا عمل جائز یا ناجائز یہ اگر ناجائز  ہے تو کس قرآن کی آیت کے لحاظ سے ناجائز ہے؟  کس حدیث شریف کے لحاظ سے  ناجائز ہے؟

دوسری صورتِ حال یہ ہے کہ میں نے پوشیدہ آمدنی ظاہر کی وقت پر گشوارہ جمع کرایا وقت پر ٪5 ٹیکس جمع کردیا، لیکنcalculationمیں غلطی کردی،  جس کہ وجہ سے ٹیکس 10روپیہ کم جمع ہوا ۔ جیسے ہے انکم ٹیکس ڈیپا رٹمنٹ سے 10 روپیہ کم جمع ہونے کا نوٹس  ملا فوراً10روپیہ جمع کردیا ۔اب انکم ٹیکس آفسرنے  مجھے اسکیم سے خارج کردیا کہ میرا ٹیکس مقررہ تاریخ کو 10 روپیہ کم تھا ۔ یہ ذہن میں رکھیں یہ غلطی ناداستگی  میں ہوئی تھی نیت صاف ہے۔براہ کرم کتاب، سنت،حدیث اور فقہ کی مستند کتابوں کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں کہ انکم ٹیکس آفیسر کافیصلہ درست اورجائز ہے یا ناجائز ہے ۔ اگر ناجائز ہے تو براہ کرم باحوالہ جواب دے!

جواب

 1۔واضح  رہے کہ  کراس چیک کے بارے میں تمام بینکوں کی پالیسی اور طریقہ کار واضح اور متعین ہے کہ اس چیک کے چالان کی رقم  ایک  دو دن تاخیر سے ہی جمع ہو تی ہے ،اس طریقہ کار  کے متعین ہوتے ہوئے بھی سائل نے  از خود مزید تاخیر کی ہے لہذا قصور بینک کانہیں  بلکہ سائل ہی  کاہے ۔

2۔اور دوسری صورت میں سائل  کی کوتاہی  کی بنیاد پر  اس کو اسکیم سے  خارج کردیاہے،لہذاسائل کو دوسروں کےطرح ٹیکس ادا کرناہوگا ۔

احكام اقرآن للجصاص ميں ہے:

"قال الله تعالى: {ولا تكسب كل نفس إلا عليها ولا ‌تزر وازرة وزر أخرى} [الأنعام: 164] ، وقال النبي صلى الله عليه وسلم: "لا يؤخذ الرجل بجريرة أبيه ولا بجريرة أخيه" ، وقال لأبي رمثة وابنه: إنه "لا يجني عليك ولا تجني عليه" ، والعقول أيضا تمنع أخذ الإنسان بذنب غيره."

(احكام القرآن،ج:2،ص:281،طدار الكتب العلمية بيروت - لبنان)

"درر الحكام في شرح مجلة الأحكام"میں ہے :

"( المادة 85 ) : الخراج بالضمان ...الخراج :هو الذي يخرجمن ملك الإنسان أي ما ينتج منه من النتاج وما يغل من الغلات كلبن الحيوان ونتائجه ، وبدل إجارة العقار ، وغلال الأرضين وما إليها من الأشياء .

ويقصد بالضمان المؤنة كالإنفاق على الحيوان ومصاريف العمارة للعقار ويفهم منها أنه من يضمن شيئا لو تلف ينتفع به في مقابلة الضمان مثلا لو رد المشتري حيوانا بخيار العيب وكان قد استعمله مدة لا تلزمه أجرته ؛ لأنه لو كان قد تلف في يده قبل الرد لكان من ماله .

يعني أن من يضمن شيئا إذا تلف يكون نفع ذلك الشيء له في مقابلة ضمانه حال التلف ومنه أخذ قولهم الغرم بالغنم ."

(( المادة 85 ):الخراج بالضمان،ج:1،ص:88،ط:دار الجيل)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308100642

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں