بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

انعامی لاٹری کی خرید و فروخت کا حکم


سوال

بازار میں خرید و فروخت کا ایک طریقہ یہ بھی رائج ہے کہ بائع مشتری سے کہتا ہے کہ (مثلا) یہ ایک ٹکٹ ہے 200 روپے کی، اگر آپ اسے خرید کر کھولیں گے تو اس میں جس سامان کا نام نکلے گاجیسے پنکھا، واشنگ مشین وغیرہ اسے آپ خریدیں گے کچھ قیمت ادا کرکے ( ٹکٹ کی قیمت کے علاوہ) اگر آپ وہ چیز نہیں لیں گے تو ٹکٹ کے 200 روپے واپس نہیں ملیں گے!! کیا یہ صورت جائز ہے؟

جواب

صورت ِ مسئولہ میں خرید وفروخت کی مذکورہ صورت شرعاً جوا اور قمار  کی ایک شکل ہے جو کہ ناجائز اور حرام ہے ؛اس لیے کہ 200 روپے کے ٹکٹ پر ممکن ہے کہ کچھ نہ نکلے  اور اگر اس ٹکٹ میں کچھ نہ کچھ ضرور نکلتا ہو  تب بھی اس کی خرید وفروخت  شرعاً جائز نہیں ؛اس لیے کہ اس میں بیع کو   معلق کیا جارہا ہے ٹکٹ کے خریدنے پر اور دوسرا اس صورت میں ثمن  مجہول ہے   لہذا  ان قباحتوں کی وجہ سے مذکورہ معاملہ کرنا شرعاً جائز نہیں ۔

فتاوی شامی میں ہے :

"لأن ‌القمار ‌من ‌القمر الذي يزداد تارة وينقص أخرى، وسمي القمار قمارا لأن كل واحد من المقامرين ممن يجوز أن يذهب ماله إلى صاحبه، ويجوز أن يستفيد مال صاحبه وهو حرام بالنص، ولا كذلك إذا شرط من جانب واحد لأن الزيادة والنقصان لا تمكن فيهما بل في أحدهما تمكن الزيادة، وفي الآخر الانتقاص فقط فلا تكون مقامرة لأنها مفاعلة منه زيلعي."

(كتاب الحظر والاباحة،فصل في البيع،ج:6،ص:403،سعيد)

تبیین الحقائق میں ہے :

"والأصل فيه أن ‌كل ‌شرط ‌لا ‌يقتضيه ‌العقد وهو غير ملائم له ولم يرد الشرع بجوازه ولم يجز التعامل فيه وفيه منفعة لأهل الاستحقاق مفسد لما روينا فإن شرط فيه ما يقتضيه العقد كشرط الملك للمشتري أو شرط فيه الملائم للعقد كالرهن والكفالة جاز؛ لأنهما للتوثقة والتأكيد لجانب الاستيفاء والمطالبة؛ لأن استيفاء الثمن مقتضى العقد ومؤكده ملائم له إذا كان معلوما بأن كان الرهن والكفالة معينين أو شرطا فيه ما ورد الشرع بجوازه كالخيار والأجل أو شرط فيه ما جرى التعامل بين الناس كشراء النعل على أن يحذوها للبائع أو يشركها أو شرط فيه ما لا منفعة فيه لأهل الاستحقاق وأهل الاستحقاق هو البائع والمشتري والمبيع الآدمي والأجنبي لا يفسد البيع لورود الشرع به أو التعامل أو لكونه ملائما.وما عدا ذلك من الشروط مفسد لما فيه من زيادة عرية عن العوض فيفضي إلى الربا ولأنه يقع بسببه المنازعة فيعري العقد عن مقصوده؛ لأن المقصود من شرع الأسباب في المعاملات قطع النزاع ليختص به المباشر للسبب."

(کتاب البیوع،باب البیع الفاسد،ج:4،ص:57،المطبعۃ الکبری الامیریۃ)

در مختار میں ہے :

"( وشرط لصحته معرفة قدر ) مبيع وثمن ( ووصف ثمن )."

(کتاب البیوع،ج:4،ص:529،سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144402101439

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں