بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

انعامی لاٹری کی خرید و فروخت کا حکم


سوال

میں انعامی لاٹریوں کے کاروبار کھولنے کا ارادہ رکھتاہوں ، اس کی عام طور پر ترتیب یہ ہوتی ہے کہ بچہ 5 روپے کی لاٹری خریدتا  رہتا ہے اورایک دفعہ فارم،  اور لاٹری میں 3 انعامی ٹوکن  ہوتے ہیں ، ان ٹوکنوں کو بچہ فار م کے مختلف خانوں میں لگاتا رہتا ہے ، پھر جس قسم کا خانہ پر ہوجائے اس کے مطابق بچے کو انعامی سامان ملتاہے ، اب عمومی طور پر  خالی لاٹری  ہوتی ہے جو کہ بظاہر دھوکہ سا لگتاہے ، میں کسی کے کہنے پر دھوکہ سے بچنے کے لیے اس میں انعام نکلنے یا نہ  نکلنے کی صورت میں  ٹافی یا چھالیہ ڈال کر فروخت کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں ، تاکہ بچے کا پیسہ ضائع نہ ہو ، کیا میرا اس قسم کا کا روبار کرنا جائز ہے ؟ 

جواب

 واضح رہے کہ  لاٹری درحقیقت سود اور جوئے پر مشتمل ہوتی ہے ، "سود" اس طور پر کہ شرعاً  "سود" اس اضافے کو کہتے ہیں جو ہم جنس مال (نقدی، مکیلی یا موزونی چیز )  کے تبادلے میں بغیر عوض آئے اور عقد کے وقت مشروط ہو، پس مثلًا پانچ سو روپے  کی لاٹری میں اگر انعام کے نام سے  ملنے والی رقم نکل آئے تو پانچ سو روپے  سے زائد جتنی بھی رقم ہے وہ ساری کی ساری بلا عوض ہے جو کہ عین سود ہونے کی وجہ سے لینا حرام ہے۔ اور اس میں "جوا" اس طور پر ہے کہ شرعاً "جوا" مال کو واپس ملنے نہ  ملنے کے خطرہ میں ڈالنے کو کہا جاتا ہے، پس لاٹری میں لگائی گئی کل رقم ڈوب  جانے  یا کم ہوجانے کا قوی اندیشہ ہوتا ہے ،  دوسرے  لوگوں کا لگایا ہوا  مال سمیٹ کر لے آنے کا بھی امکان ہوتاہے، لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر چہ سائل  حیلہ کے ذریعے بچے کا پیسہ ضائع ہونے سے بچاتا ہے اس طور پر کہ انعام نہ نکلنے کی صورت میں بچہ کو ٹافی یا چھالیہ مل جاتی ہے لیکن اس سے بچہ کا پیسہ پورا آنا ضروری نہیں ، نیز  اگر بچہ کا انعام نکلتا ہے تو اس صورت میں اس کو  اپنی جمع کردہ رقم سےاضافی رقم ملتی ہے جو کہ سود ہے ، لہذا سائل کے لیے مذکورۃ کاروبار کرنا شرعاً جائز نہیں ۔

اللہ تعالی قرآن میں فرماتے ہیں :

"يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا الرِّبَا أَضْعَافًا مُّضَاعَفَةً ۖ وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ".(سورۃ آل عمران  ، الآیۃ : 130 ) 

الدرالمختار  میں ہے: 

"هو لغة: مطلق الزيادة وشرعا (فضل)(خال عن عوض)(بمعيار شرعي) وهو الكيل والوزن مشروط) ذلك الفضل (لأحد المتعاقدين) أي بائع أو مشتر(في المعاوضة)."

( كتاب البيوع ، باب الربا ج : 5 ص : 170 ط : سعيد )

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144308101314

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں