بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

انعامی بانڈز کی رقم مسجد اور مدرسہ میں لگانا


سوال

انعامی بانڈزکی رقم مسجدومدرسےمیں لگاناکیساہے؟

جواب

واضح رہے کہ انعامی بانڈز کا حکم یہ ہے کہ ان بانڈز پر ملنے والی انعامی رقم   سود  ہونے کی وجہ ناجائز اور حرام ہے ، انعامی بانڈز خریدنے والا صرف وہ اصل رقم وصول کرسکتا ہے جو اس نے بانڈز  خریدتے وقت ادا کی تھی، لہذا صورت مسئولہ میں بانڈز کے بدلے ملنے والی انعامی رقم (یعنی جو اصل بانڈز کی قیمت سے زائد انعام کے طور پر ملے) وہ مسجد یا مدرسہ  میں  حرام ہونے کی وجہ سے نہیں لگائی جاسکتی ہے، بلکہ اس رقم کو  کسی مستحق زکوۃ شخص کو بغیر ثواب کی نیت سے دینا ضروری ہے، البتہ انعامی بانڈز کی جو اپنی قیمت تھی اتنی رقم چونکہ حلال ہے وہ رقم مسجد اور مدرسہ میں لگائی جائے سکتی ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"وفي الأشباه كل قرض جر نفعا حرام فكره للمرتهن سكنى المرهونة بإذن الراهن

(قوله كل قرض جر نفعا حرام) أي إذا كان مشروطا كما علم مما نقله عن البحر، وعن الخلاصة وفي الذخيرة وإن لم يكن النفع مشروطا في القرض، فعلى قول الكرخي لا بأس به ويأتي تمامه۔"

(کتاب البیوع ، باب المرابحہ، فصل فی القرض ج نمبر ۵ ص نمبر ۱۶۶،ایچ ایم سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144310100613

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں