میں نے ایک جگہ کمیٹی ڈالی ہے، ایک ہزار ماہانہ قسط ہے،ہرمہینےقرعہ اندازی ہوتی ہے ،اور اس قرعہ اندازی میں دس لاکھ تک کے انعامات ہیں ،اور اگر اس قرعہ اندازی میں میرا نام نکل آیا ،تو باقی اقساط معاف ہیں، اور اگر نام نہ نکلا تو آخر میں ساری جمع شدہ رقم واپس ملیں گی ۔
کیا یہ قرعہ اندازی جائزہے یا حرام ہے؟
صورت مسئولہ ميں کمیٹی کے مذکورہ طریقے میں "جوا" پايا جارہاہے، كہ اگر نام آيا تو انعام بھی ملے گا، اور بقيہ اقساط بھی معاف ہوں گی، اور اگر نام نہیں آیا تو صرف اپنی جمع شدہ رقم واپس ملے گی اور کسی قسم کا انعام بھی نہیں ملے گا، لہذا مذکورہ کمیٹی میں شریک ہونا اور رقم جمع کرانا ناجائز ہے۔
قرآنِ کریم میں ہے:
"﴿ يَآ أَيُّهَا الَّذِينَ اٰمَنُوآ اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُون﴾." [المائدة: 90]
ترجمہ:’’ اے ایمان والو! بات یہی ہے کہ شراب اور جوا اور بت وغیرہ اور قرعہ کے تیر یہ سب گندی باتیں اور شیطانی کام ہیں، سو ان سے بالکل الگ ہوجاؤ، تاکہ تم کو فلاح ہو۔‘‘ (بیان القرآن)
فتاوی شامی میں ہے:
"وسمي القمار قمارًا؛ لأنّ كل واحد من المقامرين ممن يجوز أن يذهب ماله إلى صاحبه، و يجوز أن يستفيد مال صاحبه وهو حرام بالنص."
(کتاب الحظر و الإباحة، فصل في البیع،403/6،ط:سعید)
فتاوی شامی میں ہے:
"کل ما یؤدي إلی ما لایجوز لایجوز".
(کتاب الحظر و الإباحة، فصل في اللبس،360/6،ط:سعید)
احكام القران للجصاص میں ہے:
" ولا خلاف بين أهل العلم في تحريم القمار وأن المخاطرة من القمار قال ابن عباس إن المخاطرة قمار وإن أهل الجاهلية كانوا يخاطرون على المال والزوجة وقد كان ذلك مباحا إلى أن ورد تحريمه وقد خاطر أبو بكر الصديق المشركين حين نزلت الم غلبت الروموقال له النبي صلى الله عليه وسلم زد في الخطر وأبعد في الأجلثم حظر ذلك ونسخ بتحريم القمار ولا خلاف في حظره إلا ما رخص فيه من الرهان في السبق في الدواب والإبل والنصال إذا كان الذي يستحق واحدا إن سبق ولا يستحق الآخر إن سبق وإن شرط أن من سبق منهما أخذ ومن سبق أعطى فهذا باطل فإن أدخلا بينهما رجلا إن سبق استحق وإن سبق لم يعط فهذا جائز وهذا الدخيل الذي سماه النبي صلى الله عليه وسلم محللا."
( البقرة: ٢١٩، باب تحريم الميسر، ٢ / ١١، ط: دار احياء التراث العربي)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144410101390
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن