بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

3 ربیع الثانی 1446ھ 07 اکتوبر 2024 ء

دارالافتاء

 

امتحان میں نقل کرنے کا حکم


سوال

کیا امتحانات میں نقل کر سکتے ہیں؟

جواب

واضح رہے کہ امتحانات میں نقل کرنا انتہائی بُرا عمل ہے؛ کیوں کہ امتحان خواہ کسی بھی مرحلے  کا ہو اس کا بنیادی مقصد امتحان دینے والے کی صلاحیت اور امتحانی موضوع پر اس کی گرفت کو جانچنا ہوتا ہے، امتحان کے ذریعے شرکاءِ امتحان کے درمیان اعلیٰ اور ادنیٰ مراتب قائم کیے جاتے ہیں،  جب کہ امتحان میں نقل کرنے سے جہاں یہ مقصد فوت ہو جاتا ہے ، اسی طرح  نقل کرنے والا جھوٹ، دھوکہ، خیانت، حق تلفی جیسے کبیرہ گناہوں کا مرتکب ہوتا ہے،  لہٰذا امتحانات میں نقل کرنا شرعاً ناجائز اور حرام ہے۔

حدیث شریف میں ہے:

"عن أبي هريرة عن النبي -صلى الله عليه وسلم- قال:آية ‌المنافق ‌ثلاث: إذا حدث كذب، وإذا وعد أخلف، وإذا اؤتمن خان."

(صحيح البخاري، كتاب الإيمان، باب علامة المنافق،ج:1، ص:21، ط :دار ابن كثير)

"آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، منافق کی علامتیں تین ہیں: جب بات کرے جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے اس کے خلاف کرے اور جب اس کو امین بنایا جائے تو خیانت کرے۔"

حدیث شریف میں ہے:

"عن ‌أبي هريرة أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- قال:  ‌من ‌حمل ‌علينا ‌السلاح ‌فليس ‌منا، ‌ومن ‌غشنا ‌فليس ‌منا ."

(صحيح مسلم، كتاب الإيمان، باب قول النبي صلى الله عليه تعالى وسلم: من غشنا فليس منا،ج:1، ص:99، ط: دار إحياء التراث العربي)

"آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے ہم پر ہتھیار اٹھایا وہ ہم میں سے نہیں اور جس نے ہمیں دھوکا دیا وہ ہم میں سے نہیں ہے۔"

حدیث شریف میں ہے:

"عن أبي هريرة قال: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم -: من ‌تعلم ‌علمًا ‌مما ‌يبتغي ‌به وجه الله لا يتعلمه إلا ليصيب به عرضًا من الدنيا لم يجد عرف الجنة يوم القيامة."

(مسند أحمد، صحيفة همام بن منبه، ج:8، ص:193، ط: دارالحديث،القاهرة)

"نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے ایسا علم صرف دنیاوی مقصد کے لیے سیکھا، جس سے اللہ تعالیٰ کی خوش نودی حاصل کی جاتی ہے، تو وہ قیامت کے دن جنت کی خوشبو تک نہیں پائے گا۔"

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144408102009

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں