بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

امتحان میں نقل کرنے اور اس سے حاصل کردہ ڈگری سے ملازمت کرنے اور اس کی تنخواہ لینے کا حکم


سوال

بندہ شمالی وزیرستان کا باشندہ ہے اور ایک دینی مدرسے کا فارغ التحصیل ہے، ملک کے دیگر حصوں کی طرح ہمارے ہاں بھی تعلیمی حالت بدتر ہے، یہاں پر ہر ایک زیادہ نمبرز کے حصول کے لیے ہر جائز و ناجائز حربہ استعمال کرتا ہے، قابل و ناقابل سب لوگ نقل کرتے ہیں، بلکہ بعض تو امتحان کے لیے دوسرے شخص کو بیٹھادیتے ہیں، اس صورت میں بعض علماء حضرات اپنے لیے نقل کو جائز قرار دیتے ہیں اور دلیل یہ پیش کرتے ہیں کہ اپنے حق کے حصول کے لیے نقل جائز ہے، یعنی اگر ہم نقل نہ کریں تو دوسروں کے نمبرز ہم سے بڑھ جائیں گے، جب کہ حال یہ ہے کہ ایسے تمام حضرات نقل کے بغیر بھی امتحان پاس نہیں کرسکتے،  پھر یہ لوگ نقل سے حاصل شدہ ڈگری کے ذریعہ ملازمت حاصل کرتے ہیں، مذکورہ بالا صورتِ حال کی وضاحت کے بعد مندرجہ ذیل سوالات کے جوابات مطلوب ہیں۔

1) مذکورہ حالات میں نقل درست ہے یا نہیں؟

2) مذکورہ حالات میں صرف قابل لوگوں کے لیے نقل کرنا درست ہے ؟یا ہر کس و ناکس کے لیے درست ہے؟

3) وہ شخص جس میں استعداد نہ ہو اور اس نے نقل کر کے ڈگری لے لی ہو اور اس ڈگری سے ملازمت بھی حاصل کرلی ہو تو اس کے لیے حاصل شدہ ملازمت درست ہوگی یا نہیں؟ جب کہ اس میں مضمون پڑھانے کی صلاحیت موجود ہو۔

4) نقل کے ذریعہ حاصل  شدہ ملازمت اگر درست ہے تو کیا نقل کا گناہ ہوگا یا نہیں؟ اور یہ گناہ داڑھی منڈانے کی طرح دائمی ہوگا یعنی جب تک توبہ نہ کرے اس وقت تک گناہ میں مبتلا رہے گا یا صرف ایک مرتبہ گناہ ہوگا؟

جواب

(2۔1) مذکورہ حالات میں بھی ہر شخص  (خواہ وہ قابل ہو یا قابل نہ ہو) کے لیے امتحان میں نقل کرنا شرعاً ناجائز و حرام ہے۔

باقی نقل کے جواز پر یہ دلیل دینا کہ "ہم اپنے حق کے حصول کےلیے نقل کرتے ہیں، یعنی اگر ہم نقل نہیں کریں گے تو دوسروں کے نمبرز ہم سے بڑھ جائیں گے"یہ دلیل درست نہیں ہے، کیوں کہ امتحان میں طالب علم کا حق صرف اتنے ہی نمبروں کا ہے جو وہ اپنی محنت سے حاصل کرسکے، لہذا جس طرح اُس طالبِ علم کے لیے جس نے کچھ بھی محنت نہ کی ہو اور اس میں امتحان پاس کرنے  کی صلاحیت بھی نہ ہو، نقل کر کے نمبرز حاصل کرنا ناجائز ہے اسی طرح جس نے محنت کی ہے اس کے لیے بھی نقل کر کے اپنی محنت سے زیادہ نمبرز کا حصول ناجائز ہے، کیوں کہ اپنی محنت سے زیادہ نمبرز اس کا حق  نہیں ہیں۔

3) نقل کے ذریعہ ڈگری لینا اور اس ڈگری سے ملازمت حاصل کرنا شرعاً ناجائز ہے، لیکن اگر کسی نے اس طرح ملازمت حاصل کرلی ہو تو اگر وہ شخص ملازمت کے فرائض درست طریقے سے انجام دے رہا ہو تو اس کے لیے تنخواہ حلال ہوگی اور اگر وہ ملازمت کے فرائض میں کوتاہی کرتا ہو تو  کوتاہی کے بقدر اس کے لیے تنخواہ لینا حلال نہیں  ہوگا۔

4) نقل کے ذریعے  حاصل شدہ ڈگری سے ملازمت حاصل کرنے کے بعد اگر وہ شخص ملازمت کے فرائض صحیح طریقے سے انجام دے رہا ہو تو اس صورت میں ملازمت کے حصول کے وقت جھوٹ بولنے،دھوکہ دینے، قانون شکنی کرنے اور حق تلفی کرنے کا گناہ ہوگا، یہ گناہ ممتد (مسلسل) نہیں ہوگا  اور اگر ملازمت کے فرائض انجام نہ دے سکتا ہو یا جان بوجھ کر ملازمت کے فرائض میں کوتاہی کرتا ہو تو ایسی صورت میں اگرچہ نقل کا گناہ تو ایک مرتبہ ہوا لیکن ملازمت کے فرائض میں کوتاہی کی وجہ سے مستقل گناہ گار رہے گا تاوقتیکہ کہ ملازمت کے فرائض درست طریقے سے انجام دینے لگے۔

باقی گناہ ممتد ہو یا غیر ممتد ،مسلمان پر لازم ہے کہ وہ اس گناہ سے اجتناب کرے، کیوں کہ گناہ ربِ ذو الجلال کی نافرمانی کا نام ہے اور اللہ تعالی کی نافرمانی خواہ دیکھنے میں کتنی ہی چھوٹی کیوں نہ ہو، اللہ تعالی کی عظمت کے اعتبار سے بہت بڑی ہے۔

صحیح مسلم میں ہے:

"عن أبي هريرة: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: من حمل علينا السلاح فليس منا، ومن غشنا فليس منا۔"

(صحيح المسلم، ج: 1، كتاب الايمان، باب قول النبي صلي الله عليه و سلم: من غشنا فليس منا، ص: 99، ط: دار  احياء التراث العربي، بيروت)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"الأجرة تستحق بأحد معان ثلاثة إما بشرط التعجيل أو بالتعجيل أو باستيفاء المعقود عليه فإذا وجد أحد هذه الأشياء الثلاثة فإنه يملكها۔"

(الفتاوي الهندية، ج: 4، كتاب الاجارة، الباب الثاني: متي يجب الاجر، ص: 413، ط: المكتبة الرشيدية)

قرآنِ مجید میں ہے:

مَن جَآءَ بِٱلْحَسَنَةِ فَلَهُۥ عَشْرُ أَمْثَالِهَا وَمَنْ جَآءَ بِٱلسَّيِّئَةِ فَلَا يُجْزَىٰٓ إِلَّا مِثْلَهَا وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ

 (سورۃ الانعام، آیت نمبر: 160)

ترجمہ: جو شخص نیک کام کرے گا اس کو اس کے دس حصے ملیں گے اور جو شخص برے کام کرے گا سو اس کو اس کے برابر ہی سزا ملے گی اور ان لوگوں پر ظلم نہ ہوگا۔

(ماخوذ از بیان القرآن، مؤلفہ: مولانا اشرف علی تھانوی، ج: 1، ص: 609، ط: مکتبہ رحمانیہ)

تفسیر روح المعانی میں ہے:

"من جاء بالحسنة استئناف مبين لمقادير أجزية العاملين وقد صدر ببيان أجزية المحسنين المدلول عليهم بذكر أضدادهم أي من جاء من المؤمنين بالخصلة الواحدة من خصال الطاعة أي خصلة كانت، وقيل: التوحيد ونسب إلى الحسن وليس بالحسن فله عشر حسنات أمثالها فضلا من الله تعالى...ومن جاء بالسيئة كائنا من كان من العالمين فلا يجزى إلا مثلها بحكم الوعد واحدة بواحدة۔"

(روح المعاني، ج: 4، ص: 310، ط: دار الكتب العلمية)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144305100760

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں