بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

امتحان کی نگرانی پر مامور اساتذہ کے کھانے پینے کے انتظام کے لیے طلبہ سے چندہ کرنا


سوال

ہر سال میٹرک کے سالانہ امتحانات کا انعقاد بورڈ کی طرف سے ہوتا ہے، بورڈ یہ امتحانات لینے کے لیے نگران عملہ تعینات کرتا ہے، امتحانات ختم ہونے کے کچھ عرصہ بعد بورڈ عملہ کو ٹی اے ڈی اے کی صورت میں نقد رقم دیتا ہے، اس صورت حال کے ہوتے ہوئے اساتذہ طلبہ سے نگران عملے کے کھانے پینے کے لیے پیسے اکٹھا کرتے ہیں، پیسے اکٹھا کرنے کی مندرجہ ذیل دو وجوہات ہوتی ہیں:

  1. اول یہ کہ عملہ بچوں سے نرمی برتے۔
  2. دوم بعض اساتذہ صرف دور دراز سے آنے کی وجہ سے عملہ کو کھانے کی یہ سہولت پیش کرتے ہیں۔

اس کے علاوہ وہ عملہ سے کسی رعایت کے خواہش مند نہیں ہوتے،  ان دونوں صورتوں میں وہ پیسے طلبہ سے لیتے ہیں۔

کیا ان صورتوں میں طلبہ  سے پیسے لینا جائز ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں امتحان کی خدمت پر اساتذہ  کے کھانے پینے کے کھانے پینے کے  انتظام کی غرض سے طلبہ سے رقم وصول کرنا  جائز نہیں ،کیوں کہ   ایسے موقع پر طلبہ کی جانب سے  عمومًا دلی رضامندی نہیں ہوتی اور طیبِ  نفس کے بغیر کسی کا مال استعمال کرنا شرعًا ممنوع ہے، البتہ طلبہ اگر  بالغ ہوں، اور بغیر کسی جبر و اکراہ کے، محض ترغیب دینے پر  اپنی خوشی سے اسکول انتظامیہ کو نگران اساتذہ کے کھانے پینے کے انتظام کے لیے برضا و خوشی رقم جمع کرا دیں، اور چندہ نہ دینے  والے طلبہ کی سرزنش نہ کی جاتی ہو   تو ایسی صورت میں جمع شدہ چندہ سے انتظام کرنا جائز ہوگا، بشرطیکہ اس اکرام کے نتیجے میں  نگران عملے سے کسی بھی قسم کی ناجائز رعایت  کی توقع نہ ہو۔ 

شرح مشکل الآثارمیں ہے:

" عن عمرو بن يثربي قال: خطبنا رسول الله صلى الله عليه وسلم , فقال: " لا يحل لامرئ من مال أخيه شيء إلا بطيب نفس منه " قال: قلت يا رسول الله , إن لقيت غنم ابن عمي آخذ منها شيئا؟ فقال: " إن لقيتها تحمل شفرة , وأزنادا بخبت الجميش فلا تهجها " قال أبو جعفر: ففيما روينا إثبات تحريم مال المسلم على المسلم."

(باب بيان مشكل ما روي عن رسول الله صلى الله عليه وسلم في الضيافة من إيجابه إياها ومما سوى ذلك، 7 / 252، ط: مؤسسة الرسالة )

درر الحكام في شرح مجلة الأحكاممیں ہے:

"[(المادة 859) كون الواهب عاقلا بالغًا]

(المادة 859) - (يشترط أن يكون الواهب عاقلا بالغا بناء عليه لا تصح هبة الصغير والمجنون والمعتوه وأما الهبة لهؤلاء فصحيحة) كون الواهب والمتصدق عاقلا بالغا حكما أو حقيقة يعني كونه أهلا للتبرع شرط في صحة الهبة؛ لأنه لما كان يشترط في التصرف المضر الأهلية الكاملة فلا يصح التصرف المذكور إذا لم توجد الأهلية الكاملة." (الدر المنتقى، مجمع الأنهر).

( كتاب الهبة، الباب الأول بيان المسائل المتعلقة بعقد الهبة ، الفصل الأول في بيان مسائل متعلقة بركن الهبة وقبضها، 2 / 451، ط: دار الجيل)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144212202347

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں