میں ایک عصری مدرسے میں امتحان کی انتظامیہ کا رکن ہوں، ہم امتحان کے لیے طلبہ کرام سے مناسب و متعین رقم وصول کرتے ہیں، امتحان ختم ہونے کے بعد ہمارے پاس کچھ نہ کچھ رقم انہیں بچوں کے دیے ہوئے روپوں میں سے باقی رہ جاتی ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ رقم ان طلبہ کو واپس کرنا ضروری ہوگا؟ یا ان سے پوچھے بغیر کسی دوسری مد میں استعمال کرنے کی گنجائش ہوسکتی ہے؟ برائے مہربانی اس کی وضاحت فرمادیں۔
واضح رہے کہ طلبہ سے امتحاني فيس کے نام سے جو رقم لی جاتی ہے چوں کہ وہ دورانِ امتحان امتحانی سہولیات، صفحات،نگران و عملہ اور دیگر امتحانی ضروریات کے اخراجات پورے کرنے کی غرض سے لی جاتی ہے، اس لیے اس رقم کا امتحان کے متعلق کاموں میں استعمال کرنا ضروری ہے، اگر امتحان کے بعد کچھ رقم بچ جائے، تو علی الحساب هر طالب علم كو رقم واپس لوٹانا ضروری ہوگا۔ تاہم ا گر امتحانی فیس کے نام سے رقم لیتے وقت طلبہ سے یا ان کے سرپرستوں سے اس بات کی اجازت لے لی جائے کہ ”بچ جانے والی رقم ادارہ اپنی صواب دید پر مدرسہ کی دیگر ضروریات اور مصارف میں خرچ کرے گا۔“ تو یہ اجازت معتبر ہوگی، اس کے بعد بچ جانے والی رقم کو مدرسہ کی دیگر ضروریات میں خرچ کرنا جائز ہوگا۔
مجلہ الأحکام العدلیہ میں ہے:
"(المادة 96): لا يجوز لأحد أن يتصرف في ملك الغير بلا إذنه. (المادة 97): لا يجوز لأحد أن يأخذ مال أحد بلا سبب شرعي."
(المقدمة، المقالة الثانية في بيان القواعد الكلية الفقهية، ص:27، ط:كارخانه تجارتِ كتب، آرام باغ، كراتشي)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144604101869
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن