بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

امتحان میں جزوی نقل کر کے حاصل ہونے والے نتیجہ پر اسکالر شپ لینے کا حکم


سوال

اگر امتحانات میں کچھ نقل کی ہو، لیکن مکمل نقل نہ کی ہو،تو اس کے نتیجے میں حاصل شدہ نمبرات پر  اسکالرشپ ملے تو وہ لینا جائز ہے؟

جواب

امتحانات میں نقل کرنا  جھوٹ، خیانت، دھوکا دہی، فریب اور حق داروں کی  حق تلفی جیسے گناہوں پر مشتمل ہونے  کی وجہ سے ناجائز ہے، چاہے مکمل امتحان نقل کرکے پاس کیا جائےیا جزوی طور پر نقل کی گئی ہو،لہذا اس غیر شرعی فعل کے ارتکاب کرنے کی وجہ سے سائل   پر توبہ واستغفار کرنالازم ہے،مسند احمد میں ہے:

" عن أبي أمامة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: يطبع المؤمن على الخلال كلها إلا الخيانة والكذب."

( ج: 36، صفحه: 504، رقم الحدیث: 22170، ط: مؤسسة الرسالة)

ترجمہ:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:"مومن ہر خصلت  پر ڈھل سکتا ہے سوائے خیانت اور جھوٹ کے۔"

باقی رہی بات اسکالر شپ کی تو اس میں مختلف اداروں کی جانب سے طلباء کو تعلیمی وظائف کا  اجراء کیاجاتا ہے، لہذا اس اسکالر کی شپ کی بنیاد مخصوص نمبرات نہ ہوں،تو سائل کے لیے بلاتردد اسکالر شپ لینا جائز ہے، اور اگر مخصوص نمبرات کی بنیاد پر محدود طلباء کوسکالر شپ دی جارہی ہوتونقل کرکے پاس ہونے والا شخص یہ اسکالر شپ نہ لے، کیوں کہ یہ دیگر حق داروں کی حق تلفی کے مترادف ہے۔

قرآن مجید میں ہے:

{إنَّ اللّٰهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الْأَمَانَاتِ إِلٰى أَهْلِهَا} [النساء: 58]

ترجمہ: اللہ تعالی تم کو حکم دیتا ہے کہ امانتیں ان کے مستحقین کو پہنچادیا کرو۔

احکام القرآن میں ہے:

"باب ما أوجب الله تعالى من أداء الأمانات

قال الله تعالى:{إن الله يأمركم أن تؤدوا الأمانات إلى أهلها}اختلف أهل التفسير في المأمورين بأداء الأمانة في هذه الآية من هم، فروي عن زيد بن أسلم ومكحول وشهر بن حوشب أنهم ولاة الأمر. وقال ابن جريج: "إنها نزلت في عثمان بن طلحة، أمر بأن ترد عليه مفاتيح الكعبة". وقال ابن عباس وأبي بن كعب والحسن وقتادة: "هو في كل مؤتمن على شيء "; وهذه أولى; لأن قوله تعالى:{إن الله يأمركم}خطاب يقتضي عمومه سائر المكلفين فغير جائز الاقتصار به على بعض الناس دون بعض إلا بدلالة."

(سورة النساء، ج:2، ص:259، ط:دارالكتب العلمية)

احسن الفتاوی میں ہے:

" امتحان میں ایک دوسرے سے پوچھنا یا لکھے ہوئے کاغذ یا کتاب چھپا کر ساتھ لے جانا اور اس سے دیکھ کر سوالات کا جواب لکھناوجوہ ذیل کی بناء پر شرعاً ناجائز اور حرام ہے:

1:اس میں قانون کی خلاف ورزی ہے جوناجائز ہے۔

2:ممتحن کو دھوکادیاجاتا ہے، اس لیے کہ ممتحن تویہی سمجھے گا کہ یہ جواب طالب علم نے خود اپنی یادداشت سے لکھاہے۔

3:یہ ظاہرکرنا کہ یہ جواب لکھنے ولاے نے خود اپنی قابلیت سے لکھا ہے۔

4:اس قسم کے امتحان سے نالائق شخص اپنی لیاقت ظاہر کرکے مختلف محکموں میں ایسے کام پر لگے گاجس کی اس میں صلاحیت نہیں، جس میں ملک و ملت کا سخت نقصان ہے۔"

(متفرقات الحظر والاباحۃ،ج:8، ص:222، ط:ایچ ایم سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144407100963

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں