بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

4 ذو القعدة 1446ھ 02 مئی 2025 ء

دارالافتاء

 

نقل کے ذریعے نمبرات کا حصول ، اور اس طرح کے نمبرات اور دیگر ڈگری کے ذریعہ نوکری اور تنخواہ کاحکم


سوال

 ایک شخص نے نہم، دہم، گیارہویں اور بارہویں جماعت میں نقل کے ذریعے اچھے نمبر حاصل کیے۔ بعد میں، اس نے ایک ٹیسٹ اپنی قابلیت سے دیا اور اس میں اچھے نمبر حاصل کیے۔ تاہم، بعض نوکریوں اور داخلہ ٹیسٹوں میں میرٹ بنانے کے لیے سابقہ تعلیمی نمبرات بھی شامل کیے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر، ڈاکٹری کے ٹیسٹ میں 50% نمبر ٹیسٹ کے، 40% گیارہویں و بارہویں کے، اور 10% نہم و دہم کے شامل ہوتے ہیں، چوں کہ اس شخص نے اپنی تعلیمی ڈگری کے نمبر نقل کے ذریعے حاصل کیے، لیکن ٹیسٹ میں اپنی قابلیت کی بنیاد پر کامیابی حاصل کی، اور میرٹ میں دونوں طرح کے نمبر شامل ہوئے، جس کی بنیاد پر اسے داخلہ یا نوکری مل گئی۔

ایسی صورت میں اس کی اس نوکری کا شرعی حکم کیا ہے؟ حلال ہوگی، حرام ہوگی یا مشتبہ شمار ہوگی؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں مذکورہ شخص کانہم، دہم، گیارہویں اور بارہویں جماعت کے امتحانات میں اچھے نمبرات حاصل کرنے کے لیےنقل کرنا  جھوٹ، خیانت، دھوکا دہی، فریب اور حق داروں کی  حق تلفی جیسے گناہوں پر مشتمل ہونے  کی وجہ سے ناجائز تھا،  پھرمذکورہ شخص کا داخلہ ٹیسٹوں میں میرٹ بنانے کے لیےنقل کے ذریعے حاصل شدہ نمبرات کو تعلیمی ڈگری میں شامل کرنااوراس کی بنیاد پر کسی بھی ملازمت کاحصول ناجائز تھا،مذکورہ شخص پر توبہ واستغفار کرنالازم ہے۔

ليكن اگر مذکورہ شخص نے اس طرح  ملازمت  حاصل کرلی  ہو  تو    جو  تنخواہ کے  حلال یا حرام ہونے سے متعلق  یہ ضابطہ ہے کہ اگر مذکورہ   شخص   متعلقہ ملازمت اور نوکری کی صلاحیت رکھتا  ہو اور اس کے تمام امور دیانت داری کے ساتھ انجام دیتا  ہو (یعنی مطلوبہ وقت دینے کے ساتھ ساتھ وہ ذمہ داری اسی معیار کے مطابق ادا کرے جو اس منصب کے لیے مطلوب ہے) تو اس کی تنخواہ حلال ہوگی، اس لیے کہ تنخواہ کے حلال ہونے کا تعلق فرائض کی درست ادائیگی سے  ہے، اور اگر   وہ شخص  اس ملازمت  اور نوکری کا اہل نہیں ہے، یا اہل تو ہے مگر دیانت داری کے ساتھ کام نہیں کرتا  تو اس کی تنخواہ حلال نہیں ہوگی، (یعنی جس قدر خیانت ہوگی اسی قدر تنخواہ حلال نہیں ہوگی)۔

قرآنِ مجید میں ہے:

"مَن جَآءَ بِٱلْحَسَنَةِ فَلَهُۥ عَشْرُ أَمْثَالِهَا وَمَنْ جَآءَ بِٱلسَّيِّئَةِ فَلَا يُجْزَىٰٓ إِلَّا مِثْلَهَا وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ(سورۃ الأنعام، آیت نمبر: 160)"

"ترجمہ: جو شخص نیک کام کرے گا اس کو اس کے دس حصے ملیں گے اور جو شخص برے کام کرے گا سو اس کو اس کے برابر ہی سزا ملے گی اور ان لوگوں پر ظلم نہ ہوگا۔"

(ماخوذ از بیان القرآن، مؤلفہ: مولانا اشرف علی تھانوی، ج: 1، ص: 609، ط: مکتبہ رحمانیہ)

تفسیر روح المعانی میں ہے:

"من جاء بالحسنة استئناف مبين لمقادير أجزية العاملين وقد صدر ببيان أجزية المحسنين المدلول عليهم بذكر أضدادهم أي من جاء من المؤمنين بالخصلة الواحدة من خصال الطاعة أي خصلة كانت، وقيل: التوحيد ونسب إلى الحسن وليس بالحسن فله عشر حسنات أمثالها فضلا من الله تعالى...ومن جاء بالسيئة كائنا من كان من العالمين فلا يجزى إلا مثلها بحكم الوعد واحدة بواحدة."

(روح المعاني، ج: 4، ص: 310، ط: دار الكتب العلمية)

صحیح مسلم میں ہے:

"عن أبي هريرة: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: من حمل علينا السلاح فليس منا، ومن غشنا فليس منا."

(كتاب الإيمان، باب قول النبي صلي الله عليه و سلم: من غشنا فليس منا،  ج: 1، ص: 99، ط: دار  إحياء التراث العربي، بيروت)

صحیح بخاری میں ہے:

"عن أبي هريرة رضي الله عنه،عن النبيّ صلى الله عليه وسلّم قال: آية المنافق ثلاث: إذا حدّث كذب، و إذا وعد أخلف، و إذا اؤتمن خان."

(كتاب الإيمان، باب علامة المنافق، ج:1، ص:143، ط: مكتبة البشرى)

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"فالكذب الإخبار على خلاف الواقع وحق الأمانة أن تؤدي إلى أهلها، فالخيانة مخالفة لها."

(كتاب الإيمان، باب الكبائر وعلامات النفاق، ج: 1، ص: 226، ط: مكتبة حقانية)

فتاوی  عالمگیری   میں ہے:

"الأجرة تستحق بأحد معان ثلاثة إما بشرط التعجيل أو بالتعجيل أو باستيفاء المعقود عليه فإذا وجد أحد هذه الأشياء الثلاثة فإنه يملكها."

(كتاب الإجارة، الباب الثاني: متی يجب الأجر، ج: 4، ص: 413، ط: المكتبة الرشيدية)

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144609100538

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں