بعض مدارس میں امتحان کیلئے طلبہ سے امتحانی فیس لی جاتی ہے، امتحانی فیس جمع کرانے کے بعد اگر طالب علم کو کسی عذر کے پیش آنے کی وجہ سے یا بغیر کوئی عذر کے وہ امتحان میں شریک نہ ہو سکے تو کیا جمع کرائی گئی امتحانی فیس واپس کرنا مدرسہ کے ذمہ لازم ہے؟ وہ طالب علم اس فیس کی واپسی کا مطالبہ کر سکتا ہے؟
صورتِ مسئولہ میں اگر فیس لینے کا مقصد امتحان کے دوران امتحانی سہولیات، صفحات،نگران و عملہ اور دیگر ضروریاتِ امتحان کے اخراجات پورے کرنا ہو تو مدرسہ كے ليے یہ فیس لینا جائز ہے، امتحانی فیس جمع کرنے کے بعد جب منتظم نے اس فیس کے ذریعے سے ساری سہولتیں فراہم کی ہو تو اگر کوئی طالب علم کسی عذر کی وجہ سے یا بلاعذر امتحان میں شرکت نہیں کرپاتا تو اس کے لیے امتحانی فیس کی واپسی کا مطالبہ کرنا درست نہیں ہے، اور نہ مدرسہ کے ذمہ اس کی واپسی لازم ہے، کیوں کہ مدرسہ نے طلبہ کے لیے امتحانی سہولیات فراہم کرکے اپنی ذمہ داری پوری کردی ہے، اس لیے فیس کی ادائیگی لازم ہوچکی ہے۔
بدائع الصنائع ميں ہے :
"وأما ركن الإجارة، ومعناها أما ركنها فالإيجاب والقبول وذلك بلفظ دال عليها وهو لفظ الإجارة، والاستئجار، والاكتراء، والإكراء فإذا وجد ذلك فقد تم الركن."
(كتاب الإجارة، فصل فی رکن الإجارۃ ومعناھا، ط: دار الكتب العلمية)
تبیین الحقائق میں ہے :
"المسلمون على شروطهم"، والصلح شرط، فلزمه الوفاء به حتى يثبت التحريم."
(کتاب الصلاح، ج:3، ص:194، ط:دار البشائر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144405101506
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن