ایم بی بی ایس (MBBS)میں ایک تو حکومت کی طرف سے کم قیمت پر مختلف یونیورسٹیوں میں سیٹس (Seats) ہوتی ہیں، ان کے علاوہ پرائیویٹ یونیورسٹیس بھی سیلف فائنانس (Self Finance) پر ایک خاص تعداد میں سیٹس ہوتی ہیں، ان دونوں کے لیے ایم ڈی کیٹ (MDCAT) یا اس کے مماثل امتحان لیا جاتا ہے۔
1۔ایک صاحب اپنے رشتہ دار کا داخلہ ان پرائیویٹ یونیورسٹیس میں کرانا چاہتے ہیں، وہ کہہ رہے تھے کہ اکثر لوگ یہ امتحان پیسے دے کر پاس کرا دیتے ہیں تو وہ صاحب کہہ رہے ہیں کہ اگر میرا رشتہ دار قابل ہو ، پر ہمیں یہ شک ہو کہ اگر ہم نے پیسے نہیں دیے تو دوسرے لوگ پیسے دے کر یہ امتحان پاس کروا لیں گے تو وہ صاحب کہہ رہے تھے کہ اگر ہم نے پیسے دے کر اپنے اس رشتہ دار کا امتحان کروا دیا تو اس کا کیا حکم ہے؟ وہ کہہ رہے ہیں کہ ہم کہیں کسی دوسرے کا حق تو نہیں مار رہے؟ نیزوہ کہہ رہے تھے کہ یہ پیسے صرف امتحان پاس کروانے کے لیے ہوتے ہیں، اس کے بعد ان پرائیویٹ یونیورسٹیس کی پوری پوری فیس پھر بھی دینی پڑتی ہے، نیز ہم حکومتی مختص سیٹس پر بھی داخلہ نہیں کر رہے کہ ان میں فیس ان پرائیویٹ یونیورسٹیس سے بہت زیادہ کم ہوتی ہے۔
2۔ نیز وہ صاحب کہہ رہے تھے کہ بعض پرائیویٹ یونیورسٹیس اس طرح کرتی ہے کہ کم نمبروں والے طلبہ کو اس شرط پر داخلہ دیتی ہے کہ ہماری یونیورسٹی کو معمول کی فیسس کے علاوہ 20 یا 30 لاکھ ڈونیشن (عطیہ) دینا پڑے گا۔ تو اس کا کیا حکم ہے؟
1۔صورتِ مسئولہ میں مذکورہ شخص امتحان کی تیاری کرکے امتحان پاس کرے،پیسہ دے کرامتحان پاس کرنا جائز نہیں، یہ رشوت کے زمرہ میں آتا ہے اور رشوت کا لینا دینا شرعا حرام ہے،، اس لیے حتی الامکان رشوت دینے سے بچا جائے۔
2۔ بعض پرائیویٹ یونیورسٹی والوں کا اس طرح کرناکہ کم نمبروں والے طلبہ کو اس شرط پر داخلہ دینا کہ ہماری یونیورسٹی کو معمول کے فیس کے علاوہ 20 یا 30 لاکھ ڈونیشن (عطیہ) دینا پڑے گایہ عطیہ کے حکم میں نہیں بلکہ یہ رشوت کے زمرہ میں آتا ہے جو شرعا ناجائز ہے ،ہاں اگر کوئی طالب علم واقعتاًسب سے زیادہ نمبر لے کر کامیاب ہوا، پھر بھی پیسے کے بغیر داخلہ نہیں دے رہے ہیں تو اس صورت میں پیسہ دینے والاگناہ گار نہیں ہوگا ،لینے والے گناہ گار ہوں گے ۔
مشکوۃ المصابیح میں ہے:
"وعن عبد الله بن عمرو قال : لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم الراشي والمرتشي، رواه أبو داود وابن ماجه".
(کتاب القضاء والأمارۃ، باب رزق الولاة وهداياهم، الفصل الأول، 2/ 354، ط:المکتب الإسلامي)
ترجمہ:" حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت فرمائی ہے رشوت لینے اور دینے والے پر۔"
البحر الرائق شرح كنز الدقائق میں ہے:
"وفي المصباح الرشوة بكسر الراء ما يعطيه الشخص للحاكم وغيره ليحكم له أو يحمله على ما يريد وجمعها رشا مثل سدرة وسدر...
وفي الخانية الرشوة على وجوه أربعة منها ما هو حرام من الجانبين، وذلك في موضعين: أحدهما إذا تقلد القضاء بالرشوة حرم على القاضي والآخذ وفي صلح المعراج تجوز المصانعة للأوصياء في أموال اليتامى، وبه يفتى ثم قال من الرشوة المحرمة على الآخذ دون الدافع ما يأخذه الشاعر وفي وصايا الخانية قالوا بذل المال لاستخلاص حق له على آخر رشوة. الثاني إذا دفع الرشوة إلى القاضي ليقضي له حرم من الجانبين سواء كان القضاء بحق أو بغير حق، ومنها إذا دفع الرشوة خوفا على نفسه أو ماله فهو حرام على الآخذ غير حرام على الدافع، وكذا إذا طمع في ماله فرشاه ببعض المال ومنها إذا دفع الرشوة ليسوي أمره عند السلطان حل له الدفع ولا يحل للآخذ أن يأخذ."
(کتاب القضاء، أخذ القضاء بالرشوة، 6/ 285، ط:دار الکتاب الإسلامي)
مرقاة المفاتیح میں ہے:
"(وعن عبد الله بن عمرو رضي الله عنهما) : بالواو (قال: «لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم الراشي والمرتشي» ) : أي: معطي الرشوة وآخذها، وهي الوصلة إلى الحاجة بالمصانعة، وأصله من الرشاء الذي يتوصل به إلى الماء، قيل: الرشوة ما يعطى لإبطال حق، أو لإحقاق باطل، أما إذا أعطى ليتوصل به إلى حق، أو ليدفع به عن نفسه ظلماً فلا بأس به، وكذا الآخذ إذا أخذ ليسعى في إصابة صاحب الحق فلا بأس به، لكن هذا ينبغي أن يكون في غير القضاة والولاة؛ لأن السعي في إصابة الحق إلى مستحقه، ودفع الظالم عن المظلوم واجب عليهم، فلايجوز لهم الأخذ عليه".
(کتاب الأمارة والقضاء، باب رزق الولاة وهدایاهم، الفصل الثاني، ج: 7،ص:295، ،ط:دار الکتب العلمیة)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144603100387
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن