امتحانی ہال میں نقل کرنے کاحکم کیا ہے؟اور امتحانی ہال میں دوسرے شخص کو نقل کے ذریعے سےسکھانے کا کیا حکم ہے؟اور امتحانی ہال میں استاد اگر لوگوں نقل کرنے سے نہ روکے تو اس کا کیاحکم ہے؟اس کے لیے اس عوض پیسے دیے جاتے ہیں۔
امتحانات میں نقل کرنا یا کسی دوسرے کو نقل کرانا شرعاً ناجائز ہے، یہ کئی گناہوں کا مجموعہ ہے، اس میں دھوکا دیناپایا جاتا ہے جب کہ مشہور حدیث ہے کہ جس نے دھوکا دیا وہ ہم میں سے نہیں ، اور نقل کرناوعدہ خلافی بھی ہے جو کہ اہلِ ایمان کا شیوہ نہیں ، نیز قانون شکنی بھی ہے؛ کیوں کہ حکومتی قوانین کے ساتھ ساتھ ہر ادارے کے قوانین میں بھی نقل ممنوع ہوتی ہے، لہذا یہ عمل ناجائز ہے۔
جس طرح نقل کرنا جائز نہیں ہے، اسی طرح استاذ کا کسی طالب علم کو پرچہ حل کروانا یا نقل کرنے سے نہ روک کر نقل کرانے کے عمل میں معاون بننا بھی ناجائز ہے، اس میں ایک گناہ کے کام میں معاون بننا ہے اور دوسرے اپنے فریضہ کی ادائیگی میں کوتاہی اور خیانت ہے، جو کہ ناجائز ہے، اور اس پر معاوضہ لینا بھی ناجائز ہے۔ فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144107201291
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن