بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

28 شوال 1445ھ 07 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

املی میں پانی ڈال کر بیچنا


سوال

 میرا کام املی کا ہے، دراصل بات یہ ہے کہ کینیا کی املی تھوڑی سخت ہوتی ہے، تو ہم اس میں پانی ملا کر اس کو نرم کرتے ہیں ، جس سے وزن بڑھ جاتا ہے اور ہمیں فائدا ہوتا ہے اور ہمارا کام الحمدللہ تھوک کا ہے، اور ہم آگے دکانداروں کو بتا دیتے ہیں کہ مال میں پانی ڈالا ہوا ہے۔تو اس طرح کا کام جائز ہےیا نہیں؟ اور اگر دکاندارآگے جھوٹ بول کر بیچے تو اس کا گناہ ہمیں تو نہیں ہوگا ؟ ہم تو دکاندار کو کھلا بتا دیتے ہیں کہ مال میں پانی ملا ہوا ہے۔

جواب

صورت مسئولہ میں سائل  کا املی میں پانی ملانا(جس سے املی کا وزن بڑھ جاتا ہے)  اور دکانداروں کو اس عمل کا بتاکر بیچنا   جھوٹ یا غلط بیانی نہیں ہے، لیکن سائل کے اس عمل کو دکاندار چونکہ آگے  دھوکا اور فراڈ کا ذریعہ بناتے ہیں اس لئے  سائل  کا یہ عمل شرعا درست نہیں؛ اس لئے سائل املی میں پانی ملانے سے اجتناب کرے۔

حدیث شریف میں ہے:

"عن أبى هريرة أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- مر على صبرة طعام فأدخل يده فيها فنالت أصابعه بللا فقال «ما هذا يا صاحب الطعام». قال أصابته السماء يا رسول الله. قال « أفلا جعلته فوق الطعام كى يراه الناس من غش فليس منى."

(أخرجه الإمام مسلم في صحيحه في باب قول النبى - صلى الله تعالى عليه وسلم - « من غشنا فليس منا » (1/ 69) برقم (295)، ط. دار الجيل بيروت + دار الأفاق الجديدة ـ بيروت)

فتاوی شامی میں ہے:

"وما كان سببا لمحظور فهو محظور اه."

(حاشية ابن عابدين على الدر المختار: كتاب الحظر والاباحة (6/ 350)، ط. سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144406101542

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں