بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

امداد کے لیے تنخواہ میں سے کٹوتی کو زکاۃ شمار کرنا


سوال

حکومت آزاد کشمیر نے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں سے پانچ دن کی تنخواہ کاٹ کر ترکی میں زلزلہ متاثرین کی امداد کے لیے دی ہے۔کیا اس کٹوتی کی رقم کو زکوۃ میں شمار کیا جا سکتا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ زکوۃ ایک عبادت ہے اور دیگر عبادات کی طرح اس کی ادائیگی یا الگ کرکے رکھتے وقت نیت کرنا شرط ہے ،اور بغیر نیت کے زکوۃ ادا نہیں ہوتی۔لہذا صورت مسئولہ میں جب حکومت آزاد کشمیر نے ملازمین کی تنخواہوں میں سے زلزلہ متاثرین کی امداد کے لیے کٹوتی کی تھی ،تو اس وقت ان ملازمین کی زکوۃ کی نیت نہیں تھی لہذا اب اس کٹوتی کو زکوۃ میں  شمار کرنا جائز نہیں ہے۔،نیز حکومت کا مصارف زکوۃ میں خرچ کرنا بھی یقینی نہیں ہے،اس لیے اپنے طور پر زکوۃ ادا کی جائے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(وشرط صحة أدائها نية مقارنة له) أي للأداء (ولو) كانت المقارنة (حكما) كما لو دفع بلا نية ثم نوى والمال قائم في يد الفقير، أو نوى عند الدفع للوكيل ثم دفع الوكيل بلا نية

(قوله مقارنة) هو الأصل كما في سائر العبادات، وإنما اكتفي بالنية عند العزل كما سيأتي لأن الدفع يتفرق فيتخرج باستحضار النية عند كل دفع فاكتفى بذلك للحرج بحر، والمراد مقارنتها للدفع إلى الفقير، وأما المقارنة للدفع إلى الوكيل فهي من الحكمية كما يأتي."

(کتاب الزکاۃ ،ج:2،ص:268،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144409100133

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں