بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

29 شوال 1445ھ 08 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

تراویح میں گھر میں خواتین کی امامت کرنا


سوال

میں قرآن کریم حفظ کررہا ہوں اور اس رمضان میں میں کچھ پارے تراویح میں سنانا چاہتا ہوں تو اس کے لیے کسی مسجد کا ملنا مشکل ہے ،اس لیے میں گھر میں ہی تراویح کا اہتمام کرکے قرآن سناؤں گا، تو میرا سوال یہ ہے کہ گھر میں کچھ نامحرم خواتین بھی ہوں گی کیوں کہ ہماری  جوائنٹ فیملی ہے ،تو اس سلسلے میں تراویح کی جماعت کروانا صحیح ہوگا یا نہیں ؟

اور اگر صحیح  ہے تو پھر میں خود وتر اور فرائض مسجد میں پڑھوں گا یا گھر میں خواتین کے ساتھ ہی تراویح کی طرح جماعت کرواسکتا ہوں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر آپ گھر میں تراویح کی امامت کریں اور آپ کی اقتداء میں کچھ مرد ہوں اور گھر کی ہی کچھ عورتیں پردے میں اقتدا کررہی ہوں، باہر سے عورتیں نہ آتی ہوں، اور آپ عورتوں کی امامت کی نیت بھی کریں تو اس صورت میں یہ نماز تراویح شرعاً درست ہے۔ البتہ اس صورت میں عورتیں مردوں کی صفوں سے پیچھے صف بنائیں۔

اوراگر آپ تنہا امامت کروائیں کوئی مرد آپ کے پیچھے موجود نہ ہو، مقتدی سب عورتیں ہوں اور عورتوں میں آپ کی کوئی محرم خاتون بھی موجود ہو  ، تو اس صورت میں بھی تراویح درست ہے، نامحرم خواتین پردہ کا اہتمام کرکے شریک ہوں ۔

اور اگر  مقتدی سب عورتیں ہوں ، اور عورتوں میں کوئی محرم خاتون نہ ہو،  تو ایسی صورت  آپ کے لیے عورتوں کی امامت کرنا مکروہ ہوگا؛ لہٰذا ایسی صورت سے اجتناب کیا جائے۔

جن صورتوں میں گھر میں تراویح کی جماعت کی اجازت ہے ان صورتوں میں بھی مردوں کے لیے لازم ہے کہ مسجد میں باجماعت نماز پڑھ  کر گھر میں  آکر تراویح  اور وتر باجماعت ادا کریں ،اس لیے کہ  مردوں کے لیے حالتِ صحت وتندرستی  اور عام حالات میں مساجد میں باجماعت نماز ادا کرنا حکماً واجب کے درجہ میں ہے ۔

’’فتاوی شامی‘‘ میں ہے:

" تكره إمامة الرجل لهن في بيت ليس معهن رجل غيره ولا محرم منه) كأخته (أو زوجته أو أمته، أما إذا كان معهن واحد ممن ذكر أو أمهن في المسجد لا) يكره، بحر".

(ج:1،ص:566، باب الإمامة، ط: سعید)

چنانچہ اعلاء السنن میں ہے :

"قلت دلالته علی الجزء الأول ظاهرة حیث بولغ في تهدید من تخلّف عنها وحکم علیه بالنفاق، ومثل هذا التهدید لایکون إلا في ترك الواجب، ولایخفی أن وجوب الجماعة لو کان مجردًا عن حضور المسجد لما هم رسول اﷲ ﷺ بإضرام البیوت علی المتخلفین لاحتمال أنهم صلوها بالجماعة في بیوتهم؛ فثبت أن إتیان المسجد أیضًا واجب کوجوب الجماعة، فمن صلاها بجماعة في بیته أتی بواجب وترك واجبًا آخر ... و أما مایدل علی وجوبها في المسجد فإنهم اتفقوا علی أن إجابة الأذان واجبة لما في عدم إجابتها من الوعید ...".

(ج:4،ص:186،باب وجوب إتیان الجماعة في المسجد عند عدم العلة، إدارة القرآن کراچی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144405101631

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں