بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

امامِ مسجد یا اس کے نائب کے ہوتے ہوئے کسی اور کے لیے امامت کرانے کا حکم


سوال

نائب امام کی اجازت کے بغیرکسی اور کے لیے امامت کس حد تک درست ہے؟

جواب

امام یانائبِ امام کے ہوتے ہوئے کسی اور کے لیے اُن کی اجازت کے بغیرنماز پڑھانا مکروہ ہے، اور اگر امام یا نائب امام موجود نہ ہو،تو پھر کسی اور کے لیے بلاکراہت امامت کرناجائزہے۔

الدر مع الرد میں ہے:

"(و) اعلم أن (صاحب البيت) ومثله ‌إمام ‌المسجد الراتب (أولى بالإمامة من غيره) مطلقا(قوله مطلقا) أي وإن كان غيره من الحاضرين من هو أعلم وأقرأ منه."

(كتاب الصلاة، باب الإمامة، ٥٥٩/١، ط:سعيد)

البحر الرائق میں ہے:

"أما ‌الإمام ‌الراتب فهو أحق من غيره، وإن كان غيره أفقه منه."

(كتاب الصلاة، باب الامامة، ٣٦٨/١، ط:دار الكتاب الإسلامي)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"دخل المسجد من هو أولى بالإمامة من إمام المحلة فإمام المحلة أولى. كذا في القنية."

(كتاب الصلاة، الباب الخامس في الإمامة، الفصل الثاني في بيان من هو أحق بالإمامة، ٨٣/١، ط:رشيدية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144508101833

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں