نائب امام کی اجازت کے بغیرکسی اور کے لیے امامت کس حد تک درست ہے؟
امام یانائبِ امام کے ہوتے ہوئے کسی اور کے لیے اُن کی اجازت کے بغیرنماز پڑھانا مکروہ ہے، اور اگر امام یا نائب امام موجود نہ ہو،تو پھر کسی اور کے لیے بلاکراہت امامت کرناجائزہے۔
الدر مع الرد میں ہے:
"(و) اعلم أن (صاحب البيت) ومثله إمام المسجد الراتب (أولى بالإمامة من غيره) مطلقا(قوله مطلقا) أي وإن كان غيره من الحاضرين من هو أعلم وأقرأ منه."
(كتاب الصلاة، باب الإمامة، ٥٥٩/١، ط:سعيد)
البحر الرائق میں ہے:
"أما الإمام الراتب فهو أحق من غيره، وإن كان غيره أفقه منه."
(كتاب الصلاة، باب الامامة، ٣٦٨/١، ط:دار الكتاب الإسلامي)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"دخل المسجد من هو أولى بالإمامة من إمام المحلة فإمام المحلة أولى. كذا في القنية."
(كتاب الصلاة، الباب الخامس في الإمامة، الفصل الثاني في بيان من هو أحق بالإمامة، ٨٣/١، ط:رشيدية)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144508101833
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن