بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

امامت کی ذمہ داری بوقت عقد طے ہونے کے بعد مزید کسی شعبہ کی ذمہ داری سونپنے کا حکم


سوال

ایک شخص گزشتہ چھ سال سے ایک مسجد میں امامت کی ذمہ داریاں بحسن و خوبی ادا کر رہا ہے اور اس سے متعلقہ افراد میں سے کسی کو کسی قسم کی کوئی  شکایت نہیں ، تاہم اب منتظمین کی طرف سے اسے امامت کی ذمہ داریاں جاری رکھنے کے لیے اضافی ذمہ داری شعبہ تحفیظ کی نگرانی کے ساتھ مشروط و مقید کیا جارہا ہے،  جب کہ بوقت تقرر امام صاحب کی مصروفیت تدریس انتظامیہ کے  علم میں تھی، شعبہ تحفیظ کی نگرانی کی وجہ سے امام صاحب کی تدریس کا حرج بھی ہورہا ہے ، تو آیا انتظامیہ کا یہ عمل امامت کے ساتھ تحفیظ کی نگرانی شرعی اعتبار سے کیا حیثیت رکھتا ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر مذکورہ شخص اور منتظمین کے درمیان یہ معاہدہ ہوا تھا کہ وہ شخص امامت کے فرائض انجام دے گا ، معاہدہ میں شعبۂ تحفیظ کی نگرانی شامل نہ تھی ، تو منتظمین کے لیے امامت کو شعبۂ تحفیظ کی نگرانی کے ساتھ مشروط کرنا درست نہیں۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"وأما في ‌الأجير ‌الخاص فلا يشترط بيان جنس المعمول فيه ونوعه وقدره وصفته، وإنما يشترط بيان المدّة فقط وبيان المدّة في استئجار الظئر شرط جوازه بمنزلة استئجار العبد للخدمة؛ لأن المعقود عليه هو الخدمة، فما جاز فيه جاز في الظئر وما لم يجز فيه لم يجز فيها، إلا أنّ أبا حنيفة استحسن في الظئر أن تستأجر بطعامها وكسوتها لما نذكره في موضعه إن شاء الله تعالى، ولو استأجر إنسانا ليبيع له ويشتري ولم يبيّن المدة لم يجز لجهالة قدر منفعة البيع والشراء، ولو بيّن المدة بأن استأجره شهرا ليبيع له ويشتري جاز؛ لأن قدر المنفعة صار معلوما ببيان المدّة."

(کتاب الاجارۃ، فصل فی أنواع شرائط رکن الإجارۃ، ج:6، ص:186، ط:سعید)

درر الحکام شرح مجلۃ الاحکام میں ہے:

"(و) ثاني النوعين ‌الأجير (‌الخاص) ويسمى أجير واحد أيضا (هو من يعمل لواحد عملا مؤقتا بالتخصيص) وفوائد القيود عرفت مما سبق (ويستحق الأجر بتسليم نفسه مدته، وإن لم يعمل كأجير شخص لخدمته أو رعي غنمه) وليس له أن يعمل لغيره؛ لأن منافعه صارت مستحقة له والأجر مقابل بها فيستحقه ما لم يمنع من العمل مانع كالمرض والمطر ونحو ذلك مما يمنع التمكن من العمل اعلم أن الأجير للخدمة أو لرعي الغنم إنما يكون أجيرا خاصا إذا شرط عليه أن لا يخدم غيره ولا يرعى لغيره أو ذكر المدة أو لا نحو أن يستأجر راعيا شهرا ليرعى له غنما مسماة بأجر معلوم، فإنه أجير خاص بأول الكلام أقول سره أنه أوقع الكلام على المدة في أوله فتكون منافعه للمستأجر في تلك المدة فيمتنع أن يكون لغيره فيها أيضا."

(کتاب الاجارۃ ،انواع الاجیر،ج:2،ص:236،ط:دار إحياء الكتب العربية)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144410101120

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں