بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

امامت کی غرض سے مسافت شرعی طے کرنے والا نماز میں اتمام کراسکتا ہے؟


سوال

 اگر کسی خطیب صاحب کو کمانڈر کی طرف سے ایک چھاؤنی سے دوسری چھاؤنی میں ایک ہفتے کے لیے نماز پڑھانے کے لیے بھیجا جاتا ہے، تو آیا کیا وہ وہاں مسافر شمار ہو گا یا مقیم؟ کیوں کہ اس بھیجے جانے کی صورت میں اس کا کام صرف امامت ہی کروانا ہے، اگر وہ مقیم کی نیت نہیں کرتا، تو امامت کا مقصدکلی طور پر حاصل نہیں ہو سکتا، کہ یہ ہر چار رکعت والی نماز دو رکعت پڑھائے گا، جس سے حرج لازم ہو گا، تو  آیا اس کی نیت معتبر ہو گی یا نہیں؟ آیا  کمانڈر کی طرف سے جو حکم نامہ اسے ملا ہے اس وجہ سے وہ مقیم کی نیت کرے گا؟ جب کہ اسے مدت بھی معلوم ہو۔

جواب

واضح رہے کہ اگر کوئی شخص اپنے شہر سے  اڑتالیس میل یعنی  77.24 کلو میٹر   کا سفر طے کرتا ہے،اور پندرہ دن سے کم وہاں قیام کا ارادہ کرتا ہے،تو وہ مسافر ہوتا ہے،اس پر شریعت کی طرف سے نمازوں کے بارے میں یہ حکم لاگو ہوتا ہے کہ وہ چار رکعت والی فرض  نماز میں قصر کرے،اور قصرکرنا واجب ہے،یہاں تک کہ اگر کسی نے چار رکعت پڑھ لی ،تو اس پر نماز دہرانا واجب ہوگا۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں اگرامام کو  کمانڈر کی جانب سے حکم ملنے پر  ایک چھاؤنی سے دوسری چھاؤنی ایک ہفتہ کے لیے  منتقل ہونا پڑے،اور ان کا درمیانی فاصلہ اڑتالیس میل یعنی 77.24 کلومیٹر  ہو،تو ایسی صورت میں وہ امام اس جگہ مسافر شمار ہوگا،اور وہاں نمازوں میں قصر کرنا لازم ہوگا،ایسی صورت میں چار رکعت والی فرض نماز دو پڑھنالازم ہوگا،اور بحیثیت امام یہ اعلان کرنا لازم ہوگا کہ میں مسافر ہوں ،اس لیے جب دو رکعت پر سلام پھیروں گا،تو آپ لوگ بقیہ دو رکعت مکمل کرلیا کریں،چوں کہ یہ عوام کے لیے باعث تشویش ہوگی،اس لیے مناسب یہی ہے کہ خطیب صاحب کو کم از کم پندرہ دن یا اس سےزیادہ ایام کے لیے بھیجا جائے،یا پھر کسی مقیم امام سے نماز پڑھوائی جائے،ہاں اگر وہ ظہر وعصر اور عشاء کی نماز نہ پڑھائے تو پھر کوئی حرج نہیں ،نیز اگر فاصلہ اپنے وطن اصلی یا وطن اقامت سے 48 میل یعنی 77.24 سے کم ہو تو پھر کوئی حرج نہیں ۔

مراقي الفلاح میں ہے:

"وبعكسه" بأن اقتدى مقيم بمسافر "صح" الاقتداء "فيهما" أي في الوقت وفيما بعد خروجه؛ لأنه صلى الله عليه وسلم صلى بأهل مكة وهو مسافر، وقال: "أتموا صلاتكم فإنا قوم سفر".

(كتاب الصلاة، باب صلاة المسافر، ج:1، ص:427، ط:دار الكتب العلمية)

فتاوی شامی میں ہے:

"(صلى الفرض الرباعي ركعتين) وجوباً لقول ابن عباس: «إن الله فرض على لسان نبيكم صلاة المقيم أربعاً والمسافر ركعتين»، ولذا عدل المصنف عن قولهم: قصر؛ لأن الركعتين ليستا قصراً حقيقةً عندنا بل هما تمام فرضه والإكمال ليس رخصةً في حقه بل إساءة. قلت: وفي شروح البخاري: أن الصلوات فرضت ليلة الإسراء ركعتين سفراً وحضراً إلا المغرب فلما هاجر عليه الصلاة والسلام  واطمأن بالمدينة زيدت إلا الفجر لطول القراءة فيها والمغرب لأنها وتر النهار فلما استقر فرض الرباعية خفف فيها في السفر عند نزول قوله تعالى:{فليس عليكم جناح أن تقصروا من الصلاة} وكان قصرها في السنة الرابعة من الهجرة وبهذا تجتمع الأدلة اهـ كلامهم فليحفظ".

(كتاب الصلوة، ج:2، ص:123، ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144508102035

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں