بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 ذو القعدة 1445ھ 16 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

امامت، اذان اور تعلیم قرآن پر اجرت لینے کا حکم


سوال

کیا دینی امور یعنی امامت، اذان یا قرآن پر اجرت لینا جائز ہے؟  قرآن و صحیح احادیث کی روشنی میں مدلل جواب دیں۔

جواب

فرض نماز پڑھانے  ( یعنی امامت)، اذان دینے  اور تعلیمِ قرآن (قرآن سکھانے اورپڑھانے)  کی اجرت لینے کو متأخرینِ احناف نے بوجۂ ضرورت جائز قرار دیا ہے، بات یہ ہے کہ  فقہائے متقدمین نے اس کو ناجائز قرار دیا تھا اور دین کے مختلف شعبوں میں کام کرنے والوں کا وظیفہ بھی بیت المال سے مقرر تھا؛ اس لیے یہ دینی امور منظم طریقے پر انجام ہوتے رہے،لیکن جب بیت المال کا نظام باقی نہ رہا اور ان بنیادی امور میں بدنظمی اور بے ضابطگی کا احساس ہونے لگا توفقہائے متأخرین نے صرف اذا ن،امامت اور تدریس کے لیے اجازت دی اور یہ اجازت دین کی آبیاری اور اس کی بقا کے لیے ہے ، اگر کوئی شخص ان ہی طاعات میں اپنے آپ کو مشغول کرے تو اس شخص کے لیے اپنی حاجات و ضروریات کو پور ا کرنے کے لیے دیگر ذرائع معاش کو اپنانا مشکل ہو جاتا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر دیگر ذرائع معاش کو اپنائے گا تو پھر ان طاعات کو مستقل پابندی کے ساتھ بجالانا مشکل ہے تو ایسے حالات میں اگر فقہائے متقدمین کے فتویٰ پر عمل کرتے ہوئے ان طاعات پر اجرت لینے کو ناجائز قرار دیاجائے تو دین کے ضائع ہونے کا خطرہ تھاتو  بقائے دین کی خاطر فقہائے متاخرین نے یہ فتویٰ دیا کہ ایسے طاعات جن پر دین کی بقاء موقوف ہو ان پر اجرت لینا جائز ہے ، مثلاً امامت ، موذن، تدریس ، قضاء ، منصب افتاء ۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 55 ):

"(و) لا لأجل الطاعات مثل (الأذان والحج والإمامة وتعليم القرآن والفقه)، ويفتى اليوم بصحتها لتعليم القرآن والفقه والإمامة والأذان.

 (قوله: ولا لأجل الطاعات) الأصل أن كل طاعة يختص بها المسلم لا يجوز الاستئجار عليها عندنا؛ لقوله عليه الصلاة والسلام : «اقرءوا القرآن ولا تأكلوا به»، وفي آخر ما عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم  إلى عمرو بن العاص: «وإن اتخذت مؤذناً فلا تأخذ على الأذان أجراً»؛ ولأن القربة متى حصلت وقعت على العامل، ولهذا تتعين أهليته، فلا يجوز له أخذ الأجرة من غيره كما في الصوم والصلاة، هداية. مطلب تحرير مهم في عدم جواز الاستئجار على التلاوة والتهليل ونحوه مما لا ضرورة إليه.

(قوله: ويفتى اليوم بصحتها لتعليم القرآن إلخ) قال في الهداية: وبعض مشايخنا - رحمهم الله تعالى - استحسنوا الاستئجار على تعليم القرآن اليوم؛ لظهور التواني في الأمور الدينية، ففي الامتناع تضييع حفظ القرآن، وعليه الفتوى اهـ، وقد اقتصر على استثناء تعليم القرآن أيضاً في متن الكنز ومتن مواهب الرحمن وكثير من الكتب، وزاد في مختصر الوقاية ومتن الإصلاح تعليم الفقه، وزاد في متن المجمع الإمامة، ومثله في متن الملتقى ودرر البحار".

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144212201027

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں