بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

8 ذو القعدة 1445ھ 17 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ایک حدیث کی تحقیق اور امام کا قعدہ اولیٰ میں دیر تک بیٹھنا


سوال

کیا درج ذیل الفاظ حدیث سے ثابت ہیں:

"لا صلٰوۃ إلا بحضور القلب"؟

امام صاحب کے قعدۂ  اولیٰ  میں زیادہ دیر تک بیٹھنے پر کیا وعیدہے؟ کیا ذخیرۂ  احادیث میں اس پر کوئی وعید ہے؟

جواب

1- نماز میں خشوع و خضوع شرعًا  مطلوب ہے، نمازی کی پوری توجہ اور یک سوئی نماز کی جانب ہو، اور دل و دماغ میں خیالات اور وساوس نہ ہوں،اور ایسی نماز کی بڑی فضیلت ذکر کی گئی ہے۔

البتہ مذکورہ الفاظ  "لاصلوۃ إلا بحضور القلب "تلاش کے باوجود ہمیں حدیث  کی کسی مستند کتاب میں نہیں مل  سکے۔

2- چار  یا تین رکعات والی فرض نماز کے پہلے قعدے میں تشہد کے بعد دُرود شریف پڑھے بغیر فورًا تیسری رکعت کے لیے اٹھنا لازم ہے، لہٰذا اگر بھولے سے درود شریف شروع کردیا تو یاد آتے ہی اسے چھوڑ کر تیسری رکعت کے لیے کھڑا ہوجانا چاہیے اور آخر میں سجدۂ سہو کرنا چاہیے؛  رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے فرض نماز کے قعدہ اولیٰ میں درود شریف ثابت نہیں ہے، بلکہ رسول اللہ ﷺ قعدہ اولیٰ اتنا مختصر فرمایا کرتے تھے گویا آپ ﷺ گرم زمین پر تشریف فرما ہوں، اور بعض روایات میں ہے: گویا آپ ﷺ انگارے پر بیٹھے ہوں۔ یعنی قعدہ اولیٰ سے تیسری رکعت کے لیے جلد اٹھنے سے کنایہ ہے۔ چناں چہ آپ ﷺ تشہد پڑھتے ہی تیسری رکعت کے لیے اٹھ جایا کرتے تھے، امام ترمذی رحمہ اللہ مذکورہ حدیث ذکر کرکے فرماتے ہیں: 

"اہلِ علم کے  ہاں  اسی پر عمل ہے، چناں چہ وہ پہلی دو رکعت کا قعدہ طویل کرنے کو پسند نہیں کرتے، اور نمازی کو چاہیے کہ پہلی دو رکعت کے تشہد پر کچھ بھی اضافہ نہ کرے، علماء فرماتے ہیں: اگر تشہد پر کچھ اضافہ کیا تو سجدۂ سہو لازم ہوگا، امام شعبی رحمہ اللہ اور دیگر اہلِ علم سے اسی طرح منقول ہے۔

لہٰذا امام کو چاہیے کہ قعدہ اولیٰ میں تشہد کے فوراً بعد درود شریف پڑھے بغیر کھڑے ہوجائیں اور قعدہ اولیٰ کو زیادہ طول نہ دیں۔

البتہ سننِ غیر مؤکدہ کے قعدہ اولیٰ   میں تشہد کے بعد درود شریف اور دعا پڑھ سکتے ہیں، یہ پڑھنا لازمی نہیں، مستحب ہے۔  جب کہ سننِ مؤکدہ  (مثلاً ظہر اور جمعہ سے پہلے والی سنن) اور وتر کا وہی حکم ہے جو فرض نماز کا ہے۔

باقی اگر امام صاحب التحیات کو قدرے سکون سے پڑھتے ہیں؛ تاکہ ہر قسم کے نمازی کی رعایت رکھی جائے تو یہ امر مستحسن ہے،اس پر امام صاحب کو تنقید کا نشانہ بنانا درست نہیں۔   

عمدة القاري شرح صحيح البخاري - (4 / 477):

"الخامس فيه الحث على الخشوع وحضور القلب في العبادة وذلك لأن الناعس لا يحضر قلبه والخشوع إنما يكون بحضور القلب"۔

عمدة القاري شرح صحيح البخاري - (8 / 321):

"... معلومًا من قاعدة الشرع الأمر بحضور القلب في الصلاة والإقبال عليها."

سنن الترمذي - (2 / 202):

"...سمعت أبا عبيدة بن عبد الله [ بن مسعود ] يحدث عن أبيه قال : كان رسول الله صلى الله عليه و سلم [ إذا جلس ] في الركعتين الأوليين كأنه على الرضف قال شعبة ثم حرك سعد شفتيه بشيء فأقول حتى يقوم ؟ فيقول حتى يقوم ۔

 والعمل على هذا عند أهل العمل يختارون أن لا يطيل الرجل القعود في الركعتين الأوليين ولا يزيد على التشهد شيئا ۔ وقالوا إن زاد على التشهد فعليه سجدتا السهو ۔ هكذا روي عن الشعبي وغيره."

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144212202190

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں